آراریہ میں پیش ائے واقعہ پر پاکستان موافق نعروں پر وائیرل ویڈیو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ۔ ملزمین کے گھر والوں کا ادعا

فیملی کے مطابق وائیرل ویڈیو میں جو نعرے ہیں’’ پاکستان زندہ آباد‘‘ اور ’’ بھارت تیرے تکڑے ہونگے‘‘ یا تو وہ پیچھے سے لگائے جارہے تھے یا پھر انہیں ویڈیو میں شامل کیاگیاہے۔
بہار۔ وہ تین لوگوں کے گھر والوں نے جن پرآراریہ میں موافق پاکستان نعرے لگانے کا الزام عائد ہے اورمبینہ طور پر وائیرل ویڈیو میں وہ نعرے لگاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں کے متعلق کہاکہ ہفتہ کے روز پولیس نے اصلی ویڈیو ایک کاپی ہمیں د ی ہے‘ جس میں’’ صاف طور پر‘‘ مذکورہ شخص ’’ قابل اعتراض نعرے ‘’ نہیں لگا رہا تھا۔ گھر والو ں کے مطابق وائیرل ویڈیو میں ’’ پاکستا ن زندہ باد‘‘ اور ’’بھارت تیرے تکڑے ہونگے‘‘ کے نعرے لگائے جارہے ہیںیا تو وہ نعرے پیچھے سے لگائی گئے یا پھر ویڈیو میں ان نعروں کوشامل کیاگیا ہے۔

مذکورہ واقعہ پر مشتمل حقیقی ویڈیو گھر والوں نے پولیس کے حوالے کیااور سنڈی ایکسپرس نے بھی اس کامشاہدہ کیا ہے‘ جس میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ تین لوگ نعرے لگارہے ہیں کہ’’ کانٹو کریو باپ باپ‘ لال ٹین چھاپ( کیا ہواسخت مخالفت کے بعد بھی آر جے ڈی جیت گئی)‘‘۔اراریہ پولیس نے کہاکہ تین لوگ جس میں سے دو کو جمعہ کے روز ہی گرفتار کرلیاگیا پر ایسا ویڈیو شیئر کرنے کا مقدمہ درج کیاگیا ہے جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ پولیس نے کہاکہ مزیدتحقیقات ایف ایس ایل رپورٹ کے آنے کے بعد ہی کی جائے گی جس سے پتہ چلے گا کہ ویڈیو اصلی ہے یا پھر اس کے ساتھ چھیڑ چھار کی گئی ہے۔

پچھلے سال سپریم کورٹ کی جان سے ائی ایکٹ کے دفعہ66اے کو روک لگادی تھی اس کو پولیس نے ہٹادیاہے ‘ پولیس اب بھی تینوں ملزمین ادیب رضا‘ شہزاد افروز اور سلطان اعظمی کے خلاف شواہد اکٹھا کرنے میں جٹی ہے۔اور ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف دوفرقوں کے درمیان میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر تحقیقات کی جارہی ہے۔

مذکورہ ویڈیواس وقت وائیرل ہوا جب آراریہ سے آر جے ڈی کے امیدوار سرفراز عالم ضمنی الیکشن میں کامیابی ہوئے اور مبینہ طور پر اسی جشن میںیہ نعرے بھی لگائے گئے تھے۔ وہیں شہزاد او رسلطان نے خودسپردگی اختیار کرلی اور عابد مفرور بتایاجارہا ہے اور ضمانت قبل از وقت گرفتاری کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

آر اریہ کے سب ڈیویثرنل پولیس افیسر( ڈی ایس پی یو) کے ڈی سنگھ نے کہاکہ’’ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کے قوی خدشہ پیدا ہوگیاتھا ‘ جس کی وجہہ سے ہم نے مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کیا۔ معاملے یہ نہیں ہے کہ ویڈیو آیا حقیقی ہے یا پھر اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ یہ ان لوگوں کی جانب سے پھیلائے جانے کا معاملہ ہے‘‘۔انہوں نے کہاکہ ’’ ادیب فیس بک پر راست تھا۔

اس کے گھر والو ں کو چاہئے کہ وہ ان تینوں لوگوں کے موبائیل فون پولیس کے حوالے کردیں تاکہ شفافیت تحقیقات کو انجام دیاجاسکے۔ہم نے شبہ کی بنیاد پر ان کی گرفتاری عمل میں لائی ہے اب تک بھی ہمارے پاس ان کے خلاف دوفرقوں میں نفرت پھیلانے کی کوشش کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ ہم نے فرقہ وارانہ فسادات کا سبب بننے سے روکنے کے لئے اس معاملے میں معمولی دفعات کاسہارا لیاہے‘‘۔

مذکورہ ایس ڈی پی او نے کہاکہ پولیس عدالت کی اجازت کے بعد اس ویڈیو کو پولیس پٹنہ کے ایف ایس ایل کو روانہ کریگی‘ انہوں نے کہاکہ ’’ ایف ایس ایل رپورٹ میں ویڈیوکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی بات ثابت ہوجانے کے بعد ہی مبینہ چھیڑ چھاڑ کی سازش کے متعلق تحقیقات کرسکتے ہیں۔

جیسا کہا جارہا ہے کہ نعروں کی آواز عقب سے آرہی ہے تو ہم نے جیت کے جلوس میں شامل دیگر لوگوں سے بات کی ہے‘‘۔الزام عائد ہونے سے عین قبل 18سال کے ادیب رضا نے آزاد نگر میں بارہویں جماعت کاامتحان لکھ کر آیاتھا اور وہ پٹنہ جاکر انجینئرنگ کا انٹرنس دینے کی تیاری کررہا تھا۔

اس کا بڑا بھائی ایس اے رضا پٹنہ کے کوچنگ سنٹر میں کام کرتا ہے اور بہن آراریہ میں نویں جماعت کی طالب علم ہے۔ ادیب کی ماں لولے وارڈکونسلر ہے اور والد نواب رضا پانی کی بوتلوں سپلائی کرنے کاکاروبار کرتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں رضا کو فالج کا اثر ہوا تھا جس کی وجہہ سے وہ صحیح طور پر بات نہیں کرسکتے اس کے باوجود رضا نے کہاکہ’’ کوئی بھی ویڈیو کو دیکھ کر صاف طور پر یہ کہہ سکتا ہے کہ تینوں نے کوئی بھی قابل اعتراض نعرہ نہیں لگایاہے۔

ہمارے پاس ان بچوں کے بے قصور ہونے کے پختہ ثبوت ہیں اور پولیس کے پاس شواہد موجود نہیں ہے پھر بھی وہ دباؤ میں کام کررہی ہے۔ کب تک ہمیں حب الوطن ہونے کا ثبوت دینا پڑے گا؟کچھ مفاد پرست لوگ ماحول خراب کررہے ہیں‘‘۔

رضا کے گھر والوں نے کہاکہ بہت جلد وہ ادیب کے لئے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پیش کریں گے۔ اس کے ماں لولی کا کہنا ہے کہ ان کابیٹی کاصاف ستھری شبہہ ضروری ہے کڑی محبت سے کمائی ہوئی ان کی عزت داؤ پر ہے۔اٹھارہ سال کاسلطان اعظمی دسویں جماعت سے تعلیم سے سلسلہ منقطع ہوجانے کے بعد وہ اپنے والد افتاب عالم کی موبائیل ریپر کرنے کی دوکان میں کام کررہا ہے اور اس سے بڑی تین بھائی اور ایک بہن ہے۔

اب تک وہ کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہے اس نے پڑوسیوں کے ساتھ شامل ہوگیاجنھوں سرفراز عالم کی جیت کی خوشی میں موٹر سیکل ریالی نکالی تھی۔افتاب عالم نے کہاکہ’’ مجھے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دئے جانے کا خدشہ تھا اس لئے میں نے بچے کواپنے ہاتھوں سے پولیس کے حوالے کیا تاکہ جانچ میں پولیس کو مددمل سکے۔ یقینی طور پر پولیس سیاسی دباؤ میں کام کررہی ہے۔

میں نے کام پر جانا محض اس لئے بند کردیاکیونکہ لوگ مجھے احترام کی نظر سے نہیں دیکھ رہے ہیں‘‘۔ان کی اہلیہ صبیحہ خاتون جاننا چاہتی ہیں کہ ان کا بیٹا کب تک واپس لوٹے گا۔ گھر والو ں کی سونچ ہے کہ وہ ایک اچھی وکیل کو کھڑا کریں گے اور اصلی ویڈیوپولیس کے حوالے کریں گے اور یقیناًانہیں انصاف ملے گا۔شہزاد کے بڑے بھائی طارق افروز کے مطابق حال ہی میں شہزاد نے بارہویں کا امتحان لکھا ہے او ردہلی میں رہ رہا ہے۔

انہو ں نے کہاکہ ’’ ہم سات بھائی او ر تین بہنیں ہیں۔ ہمارے والد افروز عالم ریٹائرڈ مترجم ہیں‘ شہزاد ایک وکیل بننا چاہتا ہے‘‘۔

طارق اور اس کے دوبھائیوں کے موبائیل فون کا کاروبار ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ ہم نے آراریہ پولیس سے ملاقات اور اپنی کہانی انہیں پیش کردی۔ پولیس کا بھی یہی ماننا ہے کہ ویڈیوکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔

ہم پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں مگر سماجی سطح پر ہماری شبہہ متاثر ہوئی ہے اس کا احیاء ممکن نہیں ہے‘‘۔سماجی کارکن گڈو خان نے کہاکہ ہم نے پولیس کا فی شواہد پیش کئے ہیں اور اب ہمیں امید ہے کہ دونوں نوجوانو ں کو ضمانت مل جائے گی