جھوٹ اس کاپختہ ہے‘ ہر جھوٹ لگتا ہے سچا ‘ ہاں ہاں انسانیت میں ابھی کچا ہے‘ بڑا نادان بچہ ہے مگر آدمی بڑا اچھا ہے۔
ہر پانچ سال میںآتا ہے خواب نئے دیکھاتا ہے‘ شاعرانہ اندا ز سے اپنے بڑا منورنجن کرجاتا ہے‘
بیتی باتیں بھلا تا ہے ‘ یقین ہمارا جیت جاتا ہے‘ پھر اب کی بازی مار کے ‘ پھر پانچ سال کے لئے غائب ہوجاتا ہے۔پر آدمی بڑاچھا ہے
بچھڑے کو بھوکا رکھتا ہے اور گائے کو ماں ضرور کہتا ہے‘ رام کورحیم سے لڑاتا ہے ‘ مندر اور مسجد سے خون بہاتا ہے اور کہتا ہے سب کا مالک ایک ہے‘ رام رحیم کی دوستی تڑواتا ہے ‘ پر آدمی بڑا اچھا ہے۔شیطانی دماغ رکھتا ہے ‘ انسانیت جو حقیقت میں مذہب ہے ہمارا‘ خلاف نعرے ہوئے تو کوڑے مارنے لگا تا ہے۔روپئے کے دام گھٹاتا ہے مہنگائی بڑھاتا ہے ۔ دیش کا جھنڈا دور رکھ اپنا انتخابی نشان دیکھاتا ہے ۔
ودیش سیر کو جاتا ہے ‘ نوٹ ہم سے بدل واتا ہے ۔ اچھے دنوں کا دعوی دیکر جانے کیسے دن دکھلاتا ہے ‘ پر مترو آدمی بڑاچھا ہے۔ یہ کون ہے اس کا انداز ہ پوری نظم سننے کے بعد ہی لگاسکیں گے ۔ پیش ہے ویڈی