آخر کار سمرتی ایرانی نے ایم جے اکبر پر لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات پر اپنی زبان کھولی‘ بی جے پی کااب تک موقف ظاہر نہیں ہوا۔

جنسی ہراسانی سے لے کر جنسی بدسلوکی کے تک سلسلہ وارالزامات جونیر منسٹر پر ان کے ساتھ کام کرنے والی صحافی خواتین نے لگائے ہیں۔
نئی دہلی۔مملکتی وزیر برائے امور خارجہ اورسابق ایڈیٹر ایم جے اکبر پر جنسی ہراسانی وبدسلوکی کے متعدد الزامات کے بعد بھی کسی منسٹر نے ان کے استعفیٰ کی بات نہیں اور افسوس کی بات یہ رہی ہے کہ مرکزی حکومت اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔

جنسی ہراسانی سے لے کر جنسی بدسلوکی کے تک سلسلہ وارالزامات جونیر منسٹر پر ان کے ساتھ کام کرنے والی صحافی خواتین نے لگائے ہیں

۔ایک میگزین کے لئے کالم نگار پریہ رامانی نے ایک اکٹوبر2017کے مضمون میں لکھا تھا کہ’’ وہ پلنگ‘ ایک خوفناک انٹرویوکی تکمیل‘ جس کی وجہہ سے رات ہوگئی تھی۔ ادھر اؤ یہاں پر بیٹھو ‘ آپ ایک وقت ایسا کہاتھا‘ حالانکہ بہت ہی کم جگہ تھی‘‘۔

پیر کے روز انہوں نے اس مخصوص کہانی کے خوفناک کردار کے نام کا انکشاف کیاہے‘ ایم جے اکبر۔جمعرات کے روز مرکزی ٹکسٹائیل منسٹر سمرتی ایرانی نے کہاکہ ’’ متعلق شخص ہی اس مسلئے پر با ت کرسکتا ہے۔

میں میڈیا کی ستائش کرتی ہوں جو اپنی خاتون ساتھی کے لئے آوازاٹھارہے ہیں مگر وہی شخص کہہ سکتا ہے جس پر الزام لگائے جارہے ہیں‘ میں وہاں پر تھی نہیں‘‘۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہاکہ’’ جو کوئی بھی اپنے ساتھ پیش ائے اس طرح کے واقعات پر بولنے کی ہمت کررہاہے تو اس کو شرمندہ نہیں کرنا چاہئے‘ او رنہ ہی اس کا مذاق اڑایاجانا چاہئے۔

یہی میرے ان تمام لوگوں سے اپیل ہے جو ان لائن او رآف لائن اس واقعہ پر اپنے جذبات یاغصہ کا اظہار کررہے ہیں‘‘۔ مرکزی حکومت کے ذرائع نے میل ڈوڈے کوبتایاہے کہ اکبر جو فی الحال ساوتھ افریقہ کے دورے پر ہیں توقع ہے کہ اگلے ہفتے واپس لوٹیں گے‘ اور ہوسکتاہے کہ ان سے مذکورہ الزامات کی جانچ تک عہدے چھوڑنے کے لئے کہاجائے گا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ الزامات کی نوعیت منسٹر کے خلاف نظر انداز کرنے کے زمرے سے باہر ہوگئی ہے۔

جیسا بی جے پی اس سار ی معاملے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں‘ اس کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ( آر ایس ایس)نے اس معاملے پر اپنا موقف واضح کردیا۔ٹوئٹر پر آر ایس ایس جوائنٹ سکریٹری دتاتریہ ہوسابالی نے اے بی وی پی کارکن رشمی داس کے رائے میں ان لائن پورٹل کے ذریعہ اکبر کی فوری برطرفی کے مطالبہ کی حمایت کی ۔

داس نے لکھا کہ’’ کسی خاتون صحافی کو اپنے برے تاثرات بیان کرنے کے لئے کسی می ٹو تحریک کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عورت ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔آپ کے اندر صحیح او رغلط کے متعلق بات کرنے کاحوصلہ ہونا چاہے‘‘۔

درایں اثناء کانگریس نے اس مسلئے پر اپنا موقف پوری طرح واضح کردیاہے۔ رافائیل کے متعلق اپنی پریس کانفرنس میں راہول گاندھی نے بی جے پی رکن پارلیمنٹ پر لگائے گئے سنگین الزامات کے متعلق جواب طلب کیا۔

گاندھی نے وہ اس معاملے پر بعد میں بات کریں گے۔ کانگریس لیڈر امبیکاسونی عام زبان میں می ٹو تحریک کے متعلق بات کی ‘ مگر تعجب ہے کہ ایم جے اکبر کا نام سے گریز کیا۔

سونی نے کہاکہ ’’ حوصلہ کی بات ہے کہ دس سال بعد بھی اس قسم کی بات کرتے ہوئے خاتون صحافی نے حوصلہ دیکھایا ہے۔معاملے کوالجھانے کے بعد لوگوں کو خود اپنی صفائی پیش کرنے دو‘‘۔

چہارشنبہ کے روز ایک سینئر صحافی غزلہ وہاب دس سال پرانے واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ’’ پچھلے21سال میں نے اس بات کو اپنے اندر چھپا کر رکھا‘ جو میرے لئے ایک ڈروانا خواب تھا‘ اب ہوسکتا ہے وہ خواب بند ہوجائے‘‘