ٹی آر ایس حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد سمجھوتوں کے لیے بات چیت کا آغاز کیا ، کانگریس کے تمام الزامات مسترد ، دستاویزی ثبوت کے ساتھ جواب
حیدرآباد ۔ 27 ۔ اگست : ( سیاست نیوز) : ریاستی وزیر آبپاشی مسٹر ہریش راؤ نے مہاراشٹرا سے حال اور ماضی میں کئے گئے تمام معاہدوں کے دستاویزات میڈیا کو پیش کرتے ہوئے کانگریس اور تلگو دیشم پارٹیوں کے دعوے کی قلعی کھول دی ۔ تلنگانہ کے مستقبل کے لیے مضبوط بنیاد رکھنے اور اسمبلی میں اپوزیشن کا بیانڈ بجانے کا اعلان کیا ۔ میڈیا سے آج خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ہریش راؤ نے کہا کہ جذبہ تلنگانہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے پانی کے معاملے میں خصوصی منصوبہ بندی تیار کی گئی ہے ۔ پراجکٹس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے بارش پر انحصار کیے بغیر دو فصلیں تیار کرنے کی حکمت عملی کو قطعیت دی گئی ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے تمڈی ہٹی پر 152 بلند میٹر بیارج تعمیر کرنے کی آخری مرحلے تک کوشش کی ہے ۔ 2 جون 2014 میں تلنگانہ کی تشکیل کے صرف دیڑھ ماہ میں وہ ماہرین اور انجینئرس کے ساتھ مہاراشٹرا پہونچکر کانگریس حکومت کے وزیر آبپاشی حسن مصری سے ملاقات کی اور 152 میٹر بلند بیارج تعمیر کرنے کی بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے سے اس کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ہمیں آئندہ 4 ماہ میں انتخابات کا سامنا ہے ۔ ہم کیسے اس کو قبول کریں گے ۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم ابھی اس پراجکٹ پر 8 ہزار کروڑ روپئے خرچ کرچکے ہیں ۔ مہاراشٹرا میں انتخابات کے بعد بی جے پی شیوسینا کی حکومت قائم ہوئی ۔ 152 میٹر کی مخالفت کرنے والے اپوزیشن لیڈر فرنویس چیف منسٹر بن گئے ۔ انہوں نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ 4 مارچ 2015 کو سنٹرل واٹر کمیشن نے تلنگانہ حکومت کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ چیوڑلہ پرانہیتا پراجکٹ میں 160 ٹی ایم سی پانی رہے گا جس کی توقع نہیں ہے ۔ صرف 102 ٹی ایم سی پانی کی گنجائش ہے ۔ اس میں 40 ٹی ایم سی مختلف اغراض کے لیے استعمال کیا جانے کا منصوبہ ہے ۔ لہذا نئی ریاست کے لیے نیا منصوبہ تیار کرنے کا مشورہ دینے کے بعد ٹی آر ایس حکومت نے پراجکٹ کو ری ڈیزائن کیا ہے ۔ جس سے ملنا ساگر ۔ نظام ساگر اور سنگور کو بھی پانی سربراہ کرنے کی تجویز تیار کی گئی ہے ۔ متبادل انتظامات کرنا نئی ریاست کی پہلی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ کانگریس حکومت نے 2007-08 میں جی اوز جاری کرتے ہوئے 4 مقامات پر سنگ بنیاد رکھا ۔ جس پر مہاراشٹرا اسمبلی میں کانگریس کی تیار کردہ تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے قرار داد منظور کی گئی ۔ جس کو مرکزی حکومت سے بھی رجوع کیا گیا ۔ مہاراشٹرا حکومت نے ان کی منظوری کے خلاف پراجکٹ تعمیر کرنے کا اعتراض کرتے ہوئے کانگریس حکومت کو درجنوں مکتوبات روانہ کیے مگر حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ مرکزی حکومت کی مداخلت کے بعد اس وقت کے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے مہاراشٹرا کے مفادات کو نقصان پہونچائے بغیر پراجکٹ تعمیر کرنے کا مکتوب روانہ کرتے ہوئے جواب دیا ۔ دہلی میں مرکزی وزیر آبی وسائل بنسل کی موجودگی دونوں چیف منسٹرس کرن کمار ریڈی ۔ پرتھوی راج چوہان نے دونوں ریاستوں پر مشتمل ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دینے سے اتفاق کیا اس کے صرف دو مرتبہ انجینئرس کا اجلاس طلب ہوا اس طرح 8 سال میں جملہ تین اجلاس ہوئے جو بے سود ثابت ہوئے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے دیڑھ سال میں مہاراشٹرا سے 12 اجلاس طلب کیے جس میں 6 اجلاس چیف منسٹرس اور وزراء کے ہیں تو 6 اجلاس دونوں ریاستوں کے انجینئرس کے ہیں ۔ اس سے کس کی کتنی سنجیدگی ہے ظاہر ہوتی ہے ۔ کانگریس کی جانب سے پرانہیتا چیوڑلہ کے لیے 16 منظوریاں حاصل ہونے کا جھوٹا وعدہ کیا جارہا ہے جب کہ حقیقت میں صرف معمولی 5 منظوریاں حاصل ہوئی ہیں ۔ کانگریس نے جو 8 ہزار کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں ان میں 4000 کروڑ روپئے تو صرف سروے وغیرہ پر خرچ کئے ہیں ۔ پراجکٹ کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کرنے اور اس کا ڈی پی آر اے بھی تیار نہ کرنے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ہریش راؤ نے کہا کہ یہ بین ریاستی پراجکٹ ہے جب تک مہاراشٹرا سے معاہدہ نہیں کرتے ڈی پی آر اے کیسے تیار کیا جاتا ۔ پراجکٹ کی تعمیر کے لیے 10 سال کا وقفہ ہوگیا ہے ۔ جس سے لوہے اور سمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ۔ سیراب کی جانے والی اراضی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ برقی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں ۔ تب ویاٹ 2.8 فیصد تھا اب بڑھ کر 3.8 فیصد ہوگیا ہے ۔ٹنڈرس کی قیمت میں اضافہ سے 1600 کا مزید بوجھ عائد ہوگیا ہے ۔ ایلم پلی سے تعمیر کیے جانے والے 3 ٹنلس ( سرنگ ) کا تقریبا 95 فیصد ہوگیا ہے ۔ برقی کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے ۔ حصول اراضیات تب 2 لاکھ روپئے فی ایکڑ تھی اب 8 تا 10 لاکھ روپئے فی ایکڑ ہوگئی ہے ۔ پانی ذخیرہ کرنے اور پمپنگ کرنے کی گنجائش میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پراجکٹ کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے ۔۔