۔2004 تا 2014 مسلمانوں کی ترقی کا سنہرا دور ، تحفظات سے ہر شعبہ حیات میں ترقی

برسر اقتدار ٹی آر ایس حکومت کے بلند بانگ دعوے کھوکھلے ثابت ، کانگریس کو اقتدار پر اقلیتی سب پلان ، قائد اپوزیشن تلنگانہ محمد علی شبیر کا انٹرویو

محمد نعیم وجاہت
قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل محمد علی شبیر نے 2004-2014 تک مسلمانوں کی ترقی کا سنہرا دور قرار دیتے ہوئے کہا کہ متحدہ آندھرا پردیش میں کانگریس حکومت نے ایس سی ۔ ایس ٹی طبقات کی طرز پر اقلیتوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کئی فلاحی اسکیمات کو متعارف کراتے ہوئے اقلیتوں کی سماجی معاشی اور تعلیمی شعبوں میں ترقی کے لیے فراخدلانہ فنڈز خرچ کر کے سارے ملک میں آندھرا پردیش کو مثالی ریاست میں تبدیل کردیا تھا ۔ محکمہ اقلیت بہبود قائم کرنے کا سارے ملک میں آندھرا پردیش کو اعزاز حاصل ہوا اور وہ ملک کے کسی ریاست کے پہلے وزیر اقلیتی بہبود کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں ۔۔

56 دن میں 5 فیصد مسلم تحفظات کی فراہمی
محمد علی شبیر نے کہا کہ کانگریس پارٹی نے 2004 کے انتخابی منشور میں مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور اقتدار حاصل کرتے ہی جی او 33 جاری کرکے صرف 56 دن میں مسلمانوں سے کیا گیا وعدہ پورا کردیا گیا جس سے ایم بی بی ایس میں 225 اور انجینئرنگ میں 9000 کے علاوہ دوسرے پروفیشنل کورسیس میں جملہ 22 ہزار طلبہ کو داخلہ ملا تھا جو مسلمانوں کے لیے تعلیمی انقلاب ثابت ہوا ۔ ان تحفظات کو فرقہ پرستوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور ہائی کورٹ نے اس جی او کا کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی تین وجوہات بتائی ۔ مذہب کے نام پر تحفظات فراہم کرنے پر اعتراض کیا ۔ ریاست میں پہلے سے 46 فیصد تحفظات موجود ہونے کی دلیل پیش کرتے ہوئے اندرا سہانی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے تحفظات 51 فیصد تک پہونچ جانے کا دعویٰ کیا ۔ بی سی کمیشن کے بجائے میناریٹی کمیشن کی سفارش پر 5 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا ریمارکس کیا ۔ کانگریس نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا سپریم کورٹ نے 5 فیصد کے تحت تعلیمی اداروں میں دئیے گئے تحفظات کو برقرار رکھا ۔ آئندہ فیصلے تک اس پر عمل آوری کو روک لگادیا ۔ کانگریس حکومت میں انہوں نے مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ ہائی کورٹ کے ریمارکس کا جائزہ لینے کے بعد مذہب کے بجائے معاشی ، تعلیمی ، سماجی ، پسماندگی کو بنیاد بنایا گیا جسٹس سبرامنیم کی قیادت میں بی سی کمیشن تشکیل دیا گیا حکومت کے مشیر کرشنن کی رپورٹ بی سی کمیشن کے حوالے کی گئی ۔ بی سی کمیشن نے ریاست کے مختلف اضلاع میں سماعت کا اہتمام کرنے کے بعد مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے حکومت کو رپورٹ پیش کی ۔ اس وقت ایم مکیش گوڑ وزیر بی سی ویلفیر تھے تاہم چیف منسٹر ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے انہیں ( محمد علی شبیر ) کو اسمبلی اور کونسل میں 4 فیصد مسلم تحفظات بل پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ دو دن تک مباحث کے بعد دونوں ایوانوں میں بل منظور ہوگئی ۔ اس کو بھی چیلنج کیا گیا مگر سپریم کورٹ سے حکم التواء حاصل کیا گیا ۔۔

4 فیصد مسلم تحفظات سے تعلیم و ملازمتوں میں فائدہ
2006-07 سے تاحال 4 فیصد مسلم تحفظات پر عمل آوری سے 20 لاکھ سے زیادہ دونوں تلگو ریاستوں کے مسلمانوں کو فائدہ ہوا ہے ۔ ساتھ ہی ایس سی ۔ ایس ٹی طبقات کے طرز پر اقلیتوں کو بھی 10 سال تک مکمل فیس ری ایمبرسمنٹ حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی ۔ محمد علی شبیر نے بتایا کہ نوٹ کرنے والی یہ بات ہے کہ ایس سی ، ایس ٹی طلبہ کی فیس ری ایمبرسمنٹ کی مرکز سے ادائیگی ہوجاتی ہے ۔ مگر مسلمانوں کی نہیں ہوتی اس کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد مسلمانوں کی فیس ری ایمبرسمنٹ کی ادائیگی کی ذمہ داری کانگریس حکومت نے قبول کی تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ تلگو دیشم کے دور حکومت میں صرف 13 اقلیتی انجینئرنگ کالجس تھے ۔ کانگریس حکومت نے اس کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے 56 تک پہونچا دیا ۔ مگر افسوس کہ ٹی ار ایس کے دور حکومت میں اقلیتی انجینئرنگ کالجس کی تعداد گھٹ کر 9 تک پہونچ گئی ہے ۔ 56 اقلیتی انجینئرنگ کے جنرل کوٹہ اور مسلم تحفظات کوٹہ سے سالانہ 18,000 طلبہ کو انجینئرنگ کالجس میں داخلے ملا کرتے تھے کالجس کی تعداد گھٹ جانے سے اب سالانہ 1800 طلبہ کو داخلے مل رہے ہیں ۔ کانگریس حکومت نے 7 میڈیکل کالجس کے لیے میڈیکل کونسل آف انڈیا سے سفارش کی تھی جس میں 6 کو منظوری مل گئی اور سالانہ 750 طلبہ کو جنرل اور اقلیتی کوٹہ میں داخلے مل رہے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے مفت تعلیم کی سہولت فراہم کرنے تحفظات پر عمل کرنے سے جہاں اقلیتوں کی شرح تعلیم میں اضافہ ہوا ہے وہیں ہزاروں سرکاری و خانگی ملازمتیں حاصل ہوئی ہیں جس سے ان کی معاشی پسماندگی بھی دور ہوئی ہے ۔۔

4 فیصد مسلم تحفظات سے سیاسی فائدے
کانگریس حکومت نے مسلمانوں کو سیاسی شعبہ میں مستحقہ مقام فراہم کرنے اور ہر شعبہ میں برابر کی حصہ داری دینے کے لیے مارکیٹنگ کمیٹیوں میں ایک مسلم رکن کی نامزدگی کو لازمی قرار دیا ، کوآپریٹیو سسٹم کے ہزاروں بینکوں میں ایک مسلم قائد کو معاون رکن نامزد کرنے کی شروعات کی ، ضلع پریشد اور میونسپلٹیز میں پہلے ایک معاون رکن نامزد کیا جانا تھا اس کی تعداد کو بڑھا کر دو کردی گئی تاکہ دیہی علاقے سے مسلمانوں کو برابری کی سیاسی حصہ داری دی جاسکے اور وہ قوم کی ہر سطح پر نمائندگی کرسکے ۔ حکومت نے مسلمانوں کو تعلیم و ملازمتوں میں پہلے 4 فیصد تحفظات فراہم کیا تھا اس کے بعد 2009 سے سیاسی میدان میں بھی تحفظات فراہم کیا گیاجس سے سال 2013-14 میں منعقدہ مقامی اداروں کے انتخابات میں تلنگانہ میں ایک اور آندھرا میں 2جملہ 3 مئیر منتخب ہوئے ۔ تلنگانہ میں ایک بھی ضلع پریشد صدر نشین منتخب نہیں ہوا تاہم آندھرا میں 2 منتخب ہوئے ۔ تلنگانہ میں ایک چیرمین جب کہ آندھرا میں 4 چیرمین منتخب ہوئے ۔ تلنگانہ میں 7 وائس چیرمین آندھرا میں 11 وائس چیرمین تلنگانہ میں 13 اور آندھرا میں 22 کارپوریٹرس منتخب ہوئے ۔ تلنگانہ میں 114 اور آندھرا میں 213 کونسلرس تلنگانہ میں 4 اور آندھرا میں 163 ایم پی ٹی سی منتخب ہوئے ۔ تلنگانہ میں 2 اور آندھرا میں 1 ایم پی پی صدر تلنگانہ میں 89 اور آندھرا میں 177 گرام پنچایت سرپنچس منتخب ہوئے اس طرح مقامی اداروں میں مسلم تحفظات سے تلنگانہ میں 307 آندھرا میں 606 جملہ 913 مسلم قائدین کو فائدہ ہوا ہے ۔۔

اوقافی جائیدادیں
2006 میں نامپلی حج ہاوز کے دو بازوں کی اراضی کو خرید کر مسلمانوں کے لیے بہت بڑا اثاثہ بنایا گیا ایک طرف کی اراضی 22 کروڑ اور دوسرے طرف کی اراضی 7 کروڑ میں خریدی گئی ۔ ہارٹ آف دی سٹی میں مسلمانوں کے لیے 100 کروڑ کا اثاثہ بناتے ہوئے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا گیا۔ ایرپورٹ کے قریب موجود 35 ایکڑ اراضی کو وقف بورڈ کے حوالے کی گئی ۔ درگاہ اسحاق شاہ مدنیؒ کی اراضی پر حکومت کے دوسرے محکمہ جات کے ساتھ جو تنازعات سپریم کورٹ میں چل رہے تھے کانگریس حکومت نے وقف بورڈ کے حق میں تمام مقدمات سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ملک کے لیے مثال قائم کی ۔ ہندوجا سے 15 فیصد سود کے ساتھ 37 کروڑ روپئے وقف بورڈ کو دلادیا گیا ۔ ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں لینکو ہلز کے علاوہ دوسرے قبضہ شدہ تمام اراضیات وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا ۔ لیکن اب تک ایک انچ وقف اراضی بھی واپس نہیں کی ۔ درگاہ حسین شاہ ولیؒ کی اراضی وقف نہ ہونے کا سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے ۔ اگر ٹی آر ایس حکومت وقف جائیدادوں کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو سپریم کورٹ میں درگاہ حسین شاہ ولیؒ کی اراضی سے اپنی دعویداری سے دستبردار ہوجائے ۔ وقف بورڈ کو جوڈیشیل پاور دینے کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا ۔۔

اردو کی ترقی اور اردو اکیڈیمی کی سرگرمیاں
سال 2014 تک تلنگانہ کے 10 کے منجملہ 9 اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا ۔ 4 سال بعد ٹی آر ایس حکومت نے ضلع کھمم میں بھی اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے ۔ تلگو کی عالمی کانفرنس منعقد کرتے ہوئے 100 کروڑ روپئے خرچ کیا گیا مگر اردو کو نظر انداز کردیا ۔تلگو کو لازمی مضمون بنانے کے احکامات جاری کردئیے گئے ۔ اردو اکیڈیمی کی جانب سے چلائے جانے والے 43 کمپیوٹر سنٹرس اور 33 اردو لائبریریز بند ہوچکی ہیں ۔ اردو اکیڈیمی کے ملازمین کو 6 ماہ تک تنخواہوں سے محروم رکھا جارہا ہے ۔ جو اردو والوں کا بہت بڑا المیہ ہے ۔ جب کہ پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جارہے ہیں ۔۔

آئمہ و موذنین
کانگریس کے دورحکومت میں ریاست کے آئمہ و موذنین کو تنخواہیں دینے پر غور کیا گیا ۔ اس وقت علمائے مشائخین نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے دینی تعلیمی اداروں کو عصری ٹکنالوجی و تعلیم سے آراستہ کرنے کی اپیل کی تھی جس پر بڑے دینی مدارس کو 5 اور چھوٹے دینی مدارس کو تین کمپیوٹرس فراہم کئے گئے ۔ ودیا والینٹرس کا تقرر کرتے ہوئے مسلمانوں کو فائدہ پہونچایا گیا ۔ نقصان میں رہنے والی آندھرا پردیش آئمہ و موذنین کو 8000 روپئے کاپیاکیج دے رہی ہے ۔ جس میں امام کو 5000 اور موذن کو 3000 روپئے ماہانہ معاوضہ دیا جارہا ہے۔ تلنگانہ کی مالی حالت مستحکم ہونے کے باوجود صرف ڈھائی ہزار کا پیاکیج دیا جارہا ہے ۔ جس میں امام کو 1500 اور موذن کو 1000 روپئے معاوضہ ادا کیا جارہا ہے ۔۔
کانگریس کو اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں
آئندہ انتخابات میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو مسلمانوں کے تحفظات میں توسیع کرنے کے لیے ماہرین دستور و قانون پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی ۔ آندھرا پردیش میں مسلمانوں کی آبادی 9.2 فیصد تھی انہیں تعلیم و ملازمت میں 4 فیصد تحفظات فراہم کیا گیا ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد تک پہونچ گئی ہے ۔ مسلم تحفظات میں توسیع ہوسکتی ہے کیا اس کا جائزہ لیا جائے گا ۔۔

اقلیتی سب پلان
قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے کہا کہ اقلیت سب پلان ان کا ادھورا خواب ہے ۔ انہوں نے مسلم تحفظات کی جدوجہد کی اس میں کامیابی حاصل کی اگر آئندہ کانگریس کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو اقلیتی سب پلان کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس کے دور حکومت میں اقلیتی بجٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے مگر مختص کردہ بجٹ میں 50 فیصد بھی خرچ نہیں کیا جارہا ہے ۔ اگر اقلیت سب پلان تیار کیا جاتا ہے تو جو بجٹ استعمال نہیں ہوسکا وہ آئندہ بجٹ میں شمار کرلیا جائے گا۔ کانگریس حکومت میں وقف جائیدادوں کو منشائے وقف کے تحت ترقی دی جائے گی ۔ حکومت کی جانب سے بلا سودی قرض جاری کرتے ہوئے وقف جائیدادوں کو ترقی دی جائے گی ۔ اقلیتی مالیاتی فینانس کارپوریشن کو ٹی آر ایس کے دور حکومت میں مفلوج کردیا گیا ہے ۔ قرض کی ادائیگی کے لیے لاکھوں درخواستیں وصول کی گئی مگر ابھی تک نہ ہی قرض فراہم کیا گیا اور نہ ہی سبسیڈی فراہم کرتے ہوئے بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا گیا ہے ۔ جس سے ٹی آر ایس کے خلاف مسلمانوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ کانگریس کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو حکومت مسلم نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے خصوصی منصوبہ تیار کرے گی۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ خلیجی ممالک میں روزگار کے دروازے بند ہورہے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلم نوجوان وطن واپس لوٹ رہے ہیں ۔ گلف کے متاثرین اور دوسرے بیروزگار مسلم نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے کانگریس کی حکومت میں خصوصی پیاکیج تیار کرنے پر اولین ترجیح دی جائے گی ۔ بینکوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک مکمل پیاکیج بنایا جائے گا ۔ انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے ہر ممکنہ تعاون کیا جائے گا ۔ کرن کمار ریڈی کے دور حکومت میں نیا حج ہاوز تعمیر کرنے کے لیے 5 کروڑ روپئے منظور کرتے ہوئے اراضی بھی الاٹ کی گئی تھی ۔ ٹی آر ایس کے دور حکومت میں اس کو بھی تعطل کا شکار بنادیا گیا ہے ۔ کانگریس حکومت نیا حج ہاوز تعمیر کرے گی ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ وہ ریاست کے کانگریس قائدین اور ہائی کمان سے مشاورت کرتے ہوئے اقلیتوں کی ترقی و بہبود کے لیے اقلیتی ڈیکلریشن تیار کرنے پر سنجیدگی سے غور کریں گے ۔۔