ڈاکٹر کفیل اپنی بیٹی زبرینہ کو ہوا میں اچھالتے کبھی ا سے شفقت سے پیش آتے تو کبھی گلے لگاتے میں مگر بیٹی ا ن کو پہنچان نہیں رہی تھی۔ اترپردیش کے گورکھپور اسپتال میں بچوں کے وارڈ میں خدمات انجام دینے والے 38سالہ ڈاکٹر کفیل خان جو اٹھ ماہ جیل میں گذارنے کے بعد ضمانت پر رہا کردئے گئے ہیں نے کہاکہ’’ میری بیٹی مجھے پہنچان نہیں رہی ہے‘‘۔ستمبر کے مہینے میں جب ڈاکٹر کفیل کو گرفتار کیاگیاتھا اس وقت زبرینہ محض گیارہ ماہ کی تھیں۔
اس وقت وہ رینگتی تھی اور چل رہی ہے او ردوڑ رہی ہے۔ بڑی مشکل سے وہ کہہ رہی ہے ’’پاپا‘‘ ۔میں ہمیشہ والدین سے کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کا سنگ میل کبھی ختم نہیں ہونے دیں۔ مگر میں نے یہ سب کھویا ہے۔
میں نے اس کی پہلی سالگرہ بھی نہیں منائی‘‘۔ کفیل جوکہ بابا راگھو داس میڈیکل کالج( بی آر ڈی ایم سی) گورکھپور میں اسٹنٹ پروفیسر تھے کہ بشمول اٹھ لوگوں کو پانچ روز کے اندر 60نومولود بچوں کی موت کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے گرفتار کرلیاگیاتھا
۔یہ تمام واقعہ اگست 10سال2017سے شروع ہوا جب پشپا سلیس نے آکسیجن کی سپلائی بند کردی اس کی وجہہ اسپتال کی جانب سے 68لاکھ روپئے کے بل کی عدم ادائی تھی۔
حالانکہ کمپنی نے اسپتال انتظامیہ کو14ریمائنڈرس بھی جاری کئے تھے‘ جس میں بی آر ڈی ایم سی پرنسپل راجیو مشرا ‘یوپی کے وزیر صحت سدارتھ ناتھ اور چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے نام شامل ہیں تاکہ بقایہ جات کی ادائی ہوسکے‘ مگرکسی نے بھی توجہہ نہیں دی۔
جب اسپتال میں7:30بجے کے قریب اسپتال میں آکسیجن کی سپلائی بند ہوگئی تو ڈاکٹر کے واٹس ایپ گروپ میں الرٹ مسیج آگیا۔ کفیل چھٹی پر تھے مگر پیغام ملتے ہی ڈاکٹر کفیل اسپتال کو پہنچ گئے۔
یوپی کے بسنت پور میں رہنے والے ڈاکٹر کفیل نے دعوی کیاہے کہ انہوں نے بچوں کے وارڈ کے سربراہ مہیما متل اور مشیر ا سے ربط قائم کرنے کی کوشش کی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔انہوں نے کہاکہ وہ مقامی ایجنسی او راسپتا ل سے آکسیجن کی فراہمی میں جٹ گئے۔ڈاکٹر کفیل نے کہاکہ ’’ اسپتال میں 11:30سے 1:30کے درمیان میں اسپتال میں آکسیجن نہیں تھا۔
ہرروز جاپانی بخار کی وجہہ سے 12-13نومولود ہلاک ہورہے تھے۔ مگر اگست 10کے روز30بچوں کی موت ہوگئی ۔ اچانک آکسیجن کی سپلائی کے بعد ہونے کے سبب بچوں کی موت کی بات سے میں انکار نہیں کرسکتا‘‘۔انہو ں نے اپنا فون اٹھایا اور اس خوفناک رات کی تصوئیر بتانی شروع کردی۔
جہاں پر زندہ او رمردہ نومولود وارڈ میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہو ں نے مقامی وینڈرس سے حاصل آکسیجن سلینڈرس کی خریدی کے میموز اور اعلی عہدیداروں کو کئے گئے فون کالس پر مشتمل اسکرین شارٹ بھی بتائے۔اپنے ساتھیوں کے بشمول ڈاکٹر کفیل نے48گھنٹوں میں 250سلینڈرس منگائے۔
آکسیجن ٹینک بالآخر اگست 12کی رات کو ائی ۔ اس کے بعد ٹیلی ویثرن چیانلس نے اس کو مسیحا کے طورپر پیش کرنا شروع کردیا۔ مگر جب اگست13کے روز ادتیہ ناتھ بچوں کی موت کے اسباب کی جانچ کے لئے اسپتال ائے تو انہوں نے ڈاکٹر کفیل پر برہمی کا اظہار کیا۔انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ’’ انہوں نے مجھ سے کہا‘ ڈاکٹر کفیل تم ہو؟ تم نے سلینڈرس خریدے؟ تم سمجھتے ہو تم ہیرو ہو؟ میں دیکھوں گا۔
وہ سمجھتے تھے کہ میں اسپتال کے اندر پیش آنے والے واقعات سے میڈیا کو واقف کروایا ہے۔ یہ وہی لمحہ تھا جب میری زندگی میں نشیب وفراز کی شروعات ہوئی‘‘۔جب تک وہ سمجھتے تب تک کفیل کو ہیرو سے ویلن بنادیاگیا۔ ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کئے گئے۔ مبینہ طور پر کہاجانے لگا کہ وہ ایک خانگی اسپتال چلاتے ہیں اور میڈیکل کالج سے اپنے نرسنگ ہوم کو آکسیجن سلنڈرس کی منتقلی کرتے ہیں۔
بی آر ڈی ایم سی سو بیڈ کے وارڈسے نوڈل افیسر کی ذمہ داری ان سے چھین لی گئی۔چاہنے والوں نے انہیں انتباہ دیا کہ انہیں انکاونٹر میں ماردیاجائے گا۔اپنی جان کے خوف میں وہ اگست 17کے روز دہلی فرار ہوگئے اور ایک رات نامعلوم مقام پر رہے۔ جیسے ہی ڈاکٹر لاپتہ ہوئے تو پولیس نے ان کے گھر والوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا۔
کفیل کی دائی جو بسنت پور کے گھر میں کام کرتی ہیں نے بتایا کہ کس طرح آدھی رات کو پولیس ڈاکٹر کفیل کے گھر پر آکر دستک دیتے جب ان سے کہا جاتا کہ گھر میں کوئی مردنہیں ہے تو وہ جبری طور پر گھر میں گھستے اور گھر کی عورتوں کو ہراساں کرتے تھے۔
ستمبر 1کے روز ڈاکٹر کفیل کے بڑے بھائی عادل کولکھنوسے اسپیشل ٹاسک فورس( ایس ٹی ایف) نے گرفتار کرلیا۔ حالات خراب ہوتے دیکھ کر عادل نے اپنے بھائی سے واپس آنے کو کہا۔ ڈاکٹر کفیل نے کہاکہ ’’ ستمبر2کے روز میں ایس ٹی ایف کے سامنے خودسپردگی اختیار کی‘‘۔
پولیس ک وحوالگی سے قبل ایس ٹی ایف نے مجھے لکھنو سے 251کیلومیٹر دور ساہجانوا میں گیسٹ ہاوز لے کر گئے۔ انہوں نے کہاکہ’’ ان لوگوں نے مجھ پر نیشنل سکیورٹی ایکٹ دائر کرنے کی دھمکی دی۔ وہ عید الاضحی کا دن تھا‘مگر مجھے نماز ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی‘‘۔
یہاں پر میں نے ان سے پوچھا کہ انہیں کیااسلئے انہیں بلی کا بکرا بنایاگیا ہے کیونکہ وہ مسلم ہیں۔ جو یوگی دور کے نظریات اختراع جس کے متعلق سب جانتے ہیں۔ انہوں نے کچھ وقت کے لئے توقف کیا ۔
ان کی آنکھیں تکھی ہوئی او رنم لگ رہی تھیں او رزمین پر کچھ وقت کے لئے نظریں جمائی او رکہاکہ’’جب محمد اخلاق کا مبینہ طور پر بیف رکھنے پر ہجوم کے ہاتھو ں قتل کردیاگیا اور جنید خان کو ٹرین میں سیٹ کو بنیا دبناکر مارڈالا گیاتو میں نے فیس بک پر اس کی مذمت کی۔
مگر جب میرے ساتھ یہ ہوا تو‘ انہوں نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا‘‘۔ ایک اور وقفہ کے بعد انہوں نے کہاکہ’’ صرف یوگی جی آپ کو بتاسکتے ہیں کہ کیا مسلمان ہونا کی وجہہ سے مجھ کو سزا ملی ہے۔ ہاں میں سمجھ رہاتھا کہ جب تک وہ( ادتیہ ناتھ) ہیں میں پانچ سے پہلے قید سے باہر نہیں نکل سکوں گا‘‘۔
کفیل کی بیوی شبستہ اور ماں نزہت پروین نے چیف منسٹر سے ملاقات کرکے اس کیس میں رحم کی درخواست کی مگر سب کچھ ہونے کے بعد ادتیہ ناتھ نے ان سے کہاتھا کہ’’ انصاف ہوکر رہے گا‘‘۔گھر والی بہت دنوں تک خاموش رہے مگر اپریل9کے روز جب منیش بھنڈاری پشپا سلیس کے مالک جو کہ نو ملزمین میں سے ایک تھا کو ضمانت مل گئی اور پھر انہوں نے سونچا کے ڈاکٹر کفیل کے کیس کو وسعت کی ضرورت ہے۔
اپریل18کو ڈاکٹر کفیل نے دس صفحات پر مشتمل ایک لیٹر لکھا اور اپنے رول کی وضاحت کرتے ہوئے انصاف کی گوہار لگائی۔ انہو ں نے لکھاکہ’’ میں ہراسانی اور بدگمانیوں سے میرے گھر والوں کو بچانے کے لئے خودسپردگی اختیار کی ۔میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔
مجھے انصاف ملنا چاہئے‘‘۔ گھر والو ں نے نیشنل میڈیا کے سامنے یہ لیٹر جاری کیا۔ ایک ہفتہ بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے ڈاکٹر کفیل کی ضمانت منظوری کرتے ہوئے ان پرسے’’ بدانتظامی‘‘ کے الزامات کو مستر د کردیا۔ڈاکٹر کفیل نے کہاکہ’’ اٹھ ماہ کی جیل سے خوفناک وہ 48گھنٹے تھے( جو میں نے10اگست سے 12اگست کے درمیان میں گذاری ہیں)۔ اب میں باہر ہوں ‘میری والدہ کو ان کی اولاد واپس مل گئی ۔
مگر وہ ان والدین کو اسپتال میں ہلاک ہونے والے بچے واپس نہیں ملیں گے‘‘۔ حالانکہ کچھ فیملی جن سے بات کی ہے ڈاکٹر کفیل کے بے قصور ہونے سے اب بھی مطمئن نہیں ہیں۔ اسپتال کے کچھ عہدیدار مانتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بچانے کے لئے کچھ نہیں کیاہے۔
ڈاکٹر کفیل کی اسپتال میں واپسی غیر متوقع ہوگی ‘ ان کی برطرفی اب بھی برقرار ہے۔انہوں نے کہاکہ’’ عزت واحترام کے ساتھ مجھے بلائیں گے تو ضرور جاؤں گے مگر دوبارہ ان میں شامل ہونے کیلئے بے چین نہیں ہوں۔ بڑے استحصال کا میں شکا رہوا ہوں‘‘۔
وہ جاپانی بخار سے متاثر بچوں کے علاج کے لئے اسپتال کھولنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ جو گورکھپور کی بڑی ضرورت ہے۔اٹھ ماہ میں ان کی داڑھی بڑھ گئی تھی ۔ڈاکٹر کفیل نے بتایا کہ ان کا وزن دس کیلو کم ہوا ہے۔
ڈاکٹر کفیل نے قید کے دوران کئی کتابوں کا مطالعہ کیا اور بعد یہ سبق سیکھا کہ مشکل حالات کوچھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہئے۔ٹیلی ویثرن چیانلوں پرڈاکٹر کفیل کی گرفتاری اور رہائی کے سوائے ان سے متعلق کسی بھی نیوز کی عدم اشاعت پر والدہ ناراض دیکھی۔ یہاں تک ڈاکٹر کفیل خود یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ لوگ انہیں بھول جائیں گے مگر جب ان کی رہائی عمل میں ائی اس وقت سینکڑوں لوگ ہاتھوں میں بیانر لئے کھڑے تھے جس پر لکھا تھا’’ڈاکٹر کفیل ہمارے ہیروہیں‘‘ اور’’مبارکباد‘‘۔
اترپردیش کے گورکھپور میں1979کو ایک انجینئر کے گھر میں کفیل خان کاجنم ہوا
مہاتماگاندھی انٹر کالج سے 1998میں انہوں نے اسکول مکمل کیا۔
کرناٹک کی منیپال یونیورسٹی سے انہوں نے 2000-2012کو ایم بی بی ایس اور ایم ڈی کی تعلیم مکمل کی۔
گورکھپور واپس آنے کے بعد2013میں انہوں نے بابا راگھو داس میڈیکل کالج ( بی آر ڈی ایم سی) میں بطور سینئر ریسڈنٹ ڈاکٹرس کے تین سال خدمات انجام دئے
اگست سال2016میں شعبہ اطفال میں اسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ان کا تقرر عمل میں آیا
بی آر ڈی ایم سی میں نومولوبچوں کی موت کے بعد2017میں وہ تنازعات میں گھر گئے
روپوش ہوگئے پھر بعد میں پولیس کی ہراسانی کے سبب خودسپردگی اختیار کی
اٹھ ما ہ کی قید کے بعد25اپریل2018کو انہیں ضمانت مل گئی
You must be logged in to post a comment.