سال2019کے الیکشن میں ریاست کے سبھی 80سیٹوں پر تنہا مقابلے کیاہے کانگریس نے ‘201211.6فیصد ووٹ پایاتھا 2017میں6.25ہو گیا۔
نئی دہلی۔ کانگریس نے اترپردیش میں لوک سبھا کی سبھی80سیٹوں پر تنہا مقابلہ کرنے کااعلان کردیا ہے۔
یوپی کے پچھلے تین بڑے انتخابات کو اگر جائزہ لیں تو کانگریس کے حالیہ اعلان میں کوئی دم نہیں دیکھائی دیتا۔ سال2012کے اسمبلی الیکشن‘2014کے لوک سبھا الیکشن اور 2017کے اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی حالت خراب رہی ہے۔
سال2012میں11.6فیصد ووٹ پانے والی پارٹی2017میں6.25فیصد پر سمٹ گئی ۔ اس رحجان کی بنیاد پر اگر پارٹی اکیلے یوپی کے 80لوک سبھا سیٹوں پر الیکن لڑتی ہے تو صرف پانچ سیٹوں پر ہی ٹکر دینے کی موقف میں ہوگی۔ پچھلے الیکشن کے تناسب کی بنیاد پر پارٹی صرف دو ہی سیٹوں پر مضبوط سے ابھر سکتی ہے باقی جگہ اسکا موقف کمزور ہوگا۔
جہاں تک نمبر دورہنے کی بات ہے تو کانگریس دو سے تین سیٹوں پر دوسرا مقام حاصل کرسکتی ہے ۔سال2014کے لوک سبھا الیکشن میں یہ پارٹی دو لوک سبھا سیٹوں پر نمبر دو رہے تھی۔کانگریس کو یوپی میں تین بڑی پارٹیاں ( بی جے پی‘ ایس پی ‘ بی ایس پی) کا سامنا کرنا ہوگا۔
سال2017کے یوپی اسمبلی الیکشن میں کانگریس نے ایس پی کے ساتھ اتحاد قائم کیاتھا ۔ یوپی میں اسمبلی کی 403سیٹں ہیں۔ کانگریس نے 114اور ایس پی نے 311سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا ۔ ایس پی کاساتھ ملنے کے باوجود کانگریس صرف سات سیٹوں پر جیت حاصل کرسکی۔
ایس پی اور کانگریس اتحاد میں پچیس سیٹیں ایسی تھیں جہاں پر ایس پی او رکانگریس دونوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے۔
ان سیٹوں پرکانگریس نے ایک بھی جیت حاصل نہیں کرسکی۔د وسرا مقام بھی حاصل نہیں کرسکی۔ماہرین کاماننا ہے کہ 2017کے یوپی اسمبلی الیکشن الائنس میں اکھیلیش نے دریا دلی دیکھاتے ہوئے کانگریس کو زیادہ سیٹیں سونپی دی تھیں۔
اگر2012اور 2014کے الیکشن کانگریس کے مظاہرے کو بنیاد بناکر تقسیم ہوتی تو کانگریس کوپچا س یا ساٹھ سیٹیوں ہی ملتی تھیں۔ مگر ایس پی نے 114سیٹیں کانگریس کودیدی ۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ کانگریس 6.25فیصد ووٹ تک ہی سمٹ گئی ۔
اتنا ہی نہیں کانگریس کو29سیٹیں ایسی ملی تھیں جہاں ایس پی پچھلے الیکشن میں پہلی یادوسرے نمبر پر تھی ۔ ان سیٹوں پر بھی کانگریس جیت حاصل نہیں کرسکی۔