یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت بناناانسانیت کے خلاف۔ 

سابق سفیر ہند میم افضل نے کہاکہ امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑے گا‘ سعودی حکومت سے کہاکہ وہ اپناموقف اسرائیل کے تعلق سے واضح کرے
نئی دہلی۔یروشلم کو اسرائیل کادارالحکومت بنائے جانے کے فیصلے پر امریکہ کی دنیا بھر میں مخالفت ہورہی ہے۔ ایران‘ روس ‘ ترکی کے علاوہ کئی ممالک امریکہ اس فیصلے کے خلاف متحد ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔ سابق سفیر ہند ‘ سابق رکن پارلیمنٹ وممتاز صحافی یم افضل نے یہ بات کہی۔ انہوں نے کہاکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانا مسلمان نہیں انسانیت کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ فیصلہ پوری دنی اکی جو رائے ہے اس کے خلاف ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہورہے ہیں ۔

انہو ں نے کہاکہ یہ فیصلہ عالم اسلام کے لئے بہت خراب فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ دراصل یہ فیصلہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ایک سازش ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ اب تک جواسرائیل کی حمایت کی ہے وہ تو الگ ہے لیکن ٹرمپ نے جس طرے سے اسرائیل کی راجدھانی یروشلم کو بنانے کی بات کہی ہے جس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ امریکی صدرپکے اسلام دشمن ہیں۔انہوں نے کہاکہ ٹرمپ ہر وہ کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جس کام سے مسلمانوں کو تکلیف ہو۔ انہوں نے کہاکہ ٹرمپ مسلمانو ں او رعالم اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اسرائیل کا مسئلہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے ۔ کئی ملک اس معاملہ میں اپنا موقف لے چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یوروپی یونین نے بھی امریکہ کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔انہوں نے کہاکہ امریکہ کایوروپی یونین کے علوہ کوئی دوسرا ہمنوا نہیں ہے چنانچہ یہ تنہا ہے جس نے یروشلم کو اسرائیل کی دارلحکومت تسلیم کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس معاملہ میں جو امریکہ کے خاص تھے انہوں نے بھی اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔

انہو ں نے کاکہ اس فیصلے سے امریکہ کو پوری دنیا میں زبردست نقصان پہنچا ہے اور اس کی دنیا میں زبردست بدنامی بھی ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ میرا خیال ہے کہ ٹرمپ ابھی اپنی ضد پر اڑے رہیں گے لیکن آخر میں انہیں منہ کی کھانی پڑے گی ۔ انہو ں نے کہاکہ میں سمجھتاہوں کہ آج اس مسئلہ پر پوری دنیا اتفاق ہی نہیں کررہی ہے بلکہ اقوام متحدہ او رسکیورٹی کونسل تک نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ انہو ں نے کہاکہ اس فیصلہ کو غلط قراردے دیا ہے۔میم افضل نے کہاکہ جو فیصلہ غلط ہے اس کو کون قبول کرے گا۔ انہو ں نے کہاکہ اپنے ا س فیصلے سے امریکہ جتنا ائیسولیشن میں چلا گیا ہے اس سے بھی زیادہ ائیسولیشن میں وہ چلا جائے گا۔انہو ں نے کہاکہ امریکہ طاقتور ہونے کے ناطے اس طرح کی لوٹ مار نہیں کرسکتا۔

انہو ں نے کہاکہ میں سمجھ نہیں پارہاہوں کہ آخر امریکہ اسرائیل کی اتنی خوشنودی کرنے میں کیوں لگا ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ کیاصرف اس لئے کہ اسرائیل کے سلسلہ میںیہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ عالم اسلام کا دشمن ہے؟ اور صرف دشمنی کی بنیاد پر اس کی حمایت کی جارہی ہے۔انہوں نے کہاکہ جہاں تک ہندوستان کے موقف کا سوال ہے تو آج سے نہیں بلکہ آزادی کے بعد سے ہندوستان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ رہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نریندر مودی کی صدر ٹرمپ سے دوستی کے باوجود حکومت نے صاف کردیا ہے کہ اس کا موقف وہی ہے جو شروع سے رہا ہے یعنی نریندر مودی نے بھی امریکہ کے اس فیصلے کا ساتھ دینے سے انکار کردیاہے۔انہو ں نے کہا کہ میں سمجھتاہوں کہ مودی حکومت نے یہ کام ٹھیک ہی کیاہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ اگر اس موقع پر وہ غلطی کردیتے تو اس سے ہندوستان کی بھی بدنامی ہوتی لیکن وہ ایسا مستقبل میں بھی نہیں کریں گے۔سعودی عرب کے تعلق سے میم افضل نے کہاکہ سعودی حکومت کو بھی اسرائیل کے تعلق سے اپنے موقف کو واضح کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ وہ اسرائیل سے ملے ہیںیا نہیں اس پر ہمیں کچھ نہیں کہنا ہے لیکن سعودی حکومت کو اس پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے کیونکہ دنیا بھر کی نگاہیں اس پر مرکوز ہیں۔