چین۔ ملک چین میں مذہبی ہووئے مسلم اقلیت پر حالیہ دنوں میں مساجد کے اندر مذہبی تعلیمات پر عائد امتناع کو مقامی مسلمان غیرضروری مداخلت قراردے رہے ہیں۔ان کا بڑا ڈر یہ ہے کہ چین کی حکومت ہوسکتا ہے ان قوانین کا اطلاق نارتھ ویسٹرن صوبہمیں بھی کرسکتی ہے جو فی الحال ملک کے ویسٹ میںیعنی یغور مسلمانوں کے مرکز مانے جانے والے زنجیانگ میں کیاجارہا ہے۔
متحدہ طور پر بہتر سماج کے حکومت کے ساتھ باہمی روابط بھی بہتر ہیں اور بہت سے ہووئے نے دیکھا ہے کہ انتظامیہ نے زنجیانگ میں ازواجی قوانین کے ساتھ مصلح پولیس چیک پوائنٹ ‘ ریڈکشن سنٹرس اور بڑے پیمانے پر ڈی این اے کلکشن حاصل کیاہے۔مگر جنوری میں مقامی حکومت میں تعلیمی شعبے کے عہدیداروں نے گونگھی کاونٹی میں نئے سال کی چھٹیوں کے دوران اسکولی بچوں کی مذہبی تعلیم حاصل کرنے پر روک لگادی تھی۔
یغور کمیونٹی کے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کے طرز پراب تک یہ با ت صاف نہیں ہوئی ہے کہ چھٹیوں کے بعد کیامذکورہ طلبہ اپنی تعلیمات کو جاری رکھیں گے‘ بڑھتے مذہبی رحجان کے پیش نظر ‘مگر اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ نئے قومی قوانین جس کا اطلاع یکم فبروری سے عمل آگیاہے ۔
ہووئے کی ایک مسجد کے امام لی ہیانگ جس کاتعلق ایسٹرین صوبے کے ہینان سے ہے نے بڑے ہیمانے پر اس پالیسی کے خلاف ان لائن مضامین لکھ کر اس کو چینی دستور کی خلاف ورزی قراردیا ہے کا کہنا ہے کہ’’ ہمارا احساس ہے کہ یہ مضحکہ خیز اور حیرت انگیز اقدام ہے‘‘۔
مذکورہ امام نے رائٹرس کو بتایا کہ حالیہ سالوں میں اس قسم کے امتناع کا رحجان شروع ہوا ہے مگر نفاذ کا عمل پوری طرح ناکام ہی رہا ہے۔ اس مرتبہ انتظامیہ پوری شدت کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔نئے قوانین کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے شعبہ تعلیم کے دفتر پر آرہے مسلسل فون کالس پرانتظامیہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ہے۔
اس ضمن میں چین کے اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن فار مذہبی امور سے تبصرے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے اس درخواست کو نظر انداز کردیا مگر اسٹیٹ کونسل انفارمیشن آف نے کاکہاکہ چین شہری حقوق‘ مذہبی حقوق کی آزادی بشمول بچوں کے متعلق پابند عہد ہے۔یغور مسلمان جس طرح کی صورتحال کا زنجیانگ میں سامنا کررہے ہیں اسی طرح کا دباؤ ہووئے میں مقیم مسلمانو ں پر بھی ہے۔
شدت پسندی کے فروغ پر اس قسم کے جہاں پر کاروائیاں کی جارہی ہیں۔مگر اسٹیٹ میڈیاکی خبر ہے کہ آواز سے پیدا ہونے والی آلودگی کے بچاؤ کے لئے ہووئے علاقے کی مساجد سے لاؤ اسپیکرس کو ہٹادیاگیا ہے۔
اپریل میں حکومت کے تحت چلائے جانے والے اسلامک اسوسیشن آف چین نے کہاکہ نئے ’ عرب طرز‘ پر مسجد کی تعمیر کو نامنظور کردیاگیا ہے اور جو ’’ زیادہ بڑی اور غیر معمولی تھی‘‘ جس کا مقصد چین کے روایتی ڈیزائن کو فروغ دینا ہے۔
چین حکومت کے اس اقدام کی مقامی مسلمانوں کی جانب سے کھل کر مخالفت او رمذمت بھی کی جارہی ہے۔