بریلی۔مسلمانوں کے لئے وہ رضوان تھا اور ہندوؤں کے لئے چمن۔ پھر اس کے ڈاکٹرس کے لئے یہ 24سالہ دماغی طور پر کمزور مریض تھا۔ چہارشنبہ کے شام کوضلع مرادآباد کے مضافاتی علاقے ایک منفرد جلوس جنازہ کی گواہ بنا جو یونس عرف چمن کی موت کے بعدنکالا گیا۔ دونوں فرقے کے لوگ بڑی تعدادمیںیہاں جمع ہوگئے اور اپنی حساب کے مذہبی رسومات انجام دینا چاہتے تھے۔
بالآخرمعاملہ مقامی پولیس اسٹیشن پہنچا ‘ جہاں پر غوروخوص کے بعد ایک موثر حل نکالاگیا ۔ رضوان عرف چمن کی تدفین شمشان گھاٹ میں کی گئی۔اپنے گھر وں سے باہر نکل کر ہزاروں لوگوں نے دونوں طبقے کے لوگوں کے کاندھے پر لاد کر لے جارہے جلوس جنازہ کا مشاہدہ کیا جس میں ’’ اللہ اکبر‘‘ او ر’’ رام نام ستیہ ہے‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے گلاب باری شمشا ن گھاٹ پہنچے۔
مرآد باد کے ڈپٹی سپریڈنٹ آف پولیس ( ڈی ایس پی) سدیش کمار گپتا نے کہاکہ ’’داس سرائی علاقے کے ساکن رام کشن سیانی کے گھر والوں نے یہاں پر دعوی کیا تھا کہ رضوان عرف چمن ان کا بیٹا ہے جو2009میں لاپتہ ہوگیاتھا۔مذکورہ لوگوں کا کہنا یہ بھی تھا کہ ان لوگوں2014 اسلت پورا علاقے میں اس کی تلاش بھی کی تھی‘ جوداس سرائی سے تین کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
درایں اثناء اسلت پورے کے ساکن سبحا ن علی کے گھر والوں کا کہناہے کہ و ہ لوگ پچھلے پانچ سالوں سے اس دماغی طور پر کمزور نوجوان کی دیکھ بھال کررہے ہیں اور اس نام کا رضوان رکھا‘‘۔ اسی سال پنچایت طلب کرکے اس بات کا فیصلہ کیاگیاہے کہ دونوں خاندان اس شخص کی دیکھ بھال کریں گے۔
اس میںیہ بھی فیصلہ کیاگیا ہے کہ مہینے کے پندرہ روز وہ ایک خاندان کے پاس رہے گا۔کندن سیانی جس نے چمن کا بڑا بھائی ہونے کا دعوی کیاتھانے کہاکہ’’ چمن کے ہمارے بھائی ہونے میں ہوئی کوئی خدشہ نہیں ہے۔
ہوسکتا ہے وہ سبحان علی کے گھر والوں کے ساتھ رہا ہوگا مگر اس کے جسم پر ان کا حق نہیں ہوسکتا‘‘۔اسی دوران رضوان کے بڑی بہن شاہدہ نے کہاکہ ’’ مذکورہ (سیانی) جھوٹ بول رہے ہیں ‘ وہ ہمارا بھائی تھا‘‘۔ ڈی ایس پی گپتان نے کہاکہ’’ وہ اس وقت سیانی کے گھر میں تھا جب اس کا علاج چل رہاتھا۔
ضلع اسپتال کے ڈاکٹرس نے اس مردہ قراردیا۔ دونوں گھر والے نعش کے اوپر جھگڑا کرنا شروع کردیا اور بالآخر اس کے آخری رسومات دونوں طبقات کے عقائد کی بنیاد پر کئے گئے‘‘