ہم تمام ہندو نہیں ہیں‘ مگر تمام ہندوستانی ہیں۔ کرن تھاپر

اگر آج ہم مسلمان‘ عیسائی ‘ سکھ ‘ جین ‘ بدھسٹ ‘ پارسی ‘ یا ناستک ہیں تو پھر یہ فکر کیو ں کہ ہم ہیں کیا‘ یہ دراصل اس کی وجہہ غلطی اور یہاں تک کے اصرار ہے کہ ہم ہندو ہیں کیونکہ ہمارے آجداد سے تعلق ہے یا نہیں۔مذکورہ بحث یہ ہے کہ ہم تمام ہندو ہیں کیونکہ ایک وقت سے ہندوازم برصغیر کا واحد مذہب ہے ۔
کیونکہ اگر ہم حقیقت میں ماضی کی باتوں کاجائزہ لیں گے تو ایک بات ہمیں متحد کرتی ہے اور یہ سب باتوں سے ہٹ کر ایک حقیقت یہ ہے کہ ہم تمام بندر ‘ چیمپانزیس‘اور جو بھی ہیں جس کے متعلق چارلیس ڈروین کی تحقیقات سے منظرعام پر ائے باتیں ہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ ہماری شروعات پرتوزا کے طور پرہوئی ہے۔درحقیقت ‘ ماضی میںیہاں تک تمام کا تعلق ایک ہی نسل سے ہے۔ مگر اس کا کیا؟مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم کیا ہیں مگر ہم کیسے بن گئے ہیں‘ ذاتی طورپر ہمارے عقائد کیاہے اور ہم اپنے عزیزو ں کے سامنے خود کو کس طرح پیش کرتے ہیں۔

ان تمام باتوں کے بعد ہم خود کو کس طرح بیان کرتے ہیں۔درحقیقت یہ بھی ہمارے نصابی سونچ کا حصہ ہوسکتا ہے۔

اگر آج ہم مسلمان‘ عیسائی ‘ سکھ ‘ جین ‘ بدھسٹ ‘ پارسی ‘ یا ناستک ہیں تو پھر یہ فکر کیو ں کہ ہم ہیں کیا‘ یہ دراصل اس کی وجہہ غلطی اور یہاں تک کے اصرار ہے کہ ہم ہندو ہیں کیونکہ ہمارے آجداد سے تعلق ہے یا نہیں۔مذکورہ بحث یہ ہے کہ ہم تمام ہندو ہیں کیونکہ ایک وقت سے ہندوازم برصغیر کا واحد مذہب ہے ۔

راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کے سر سنچالک کا بیان مجھے حیران کن لگا۔ مجھے یقین نہیں ہے وہ اپنے اس دعوی جس میں انہوں نے کہاکہ تھا کہ تمام ہندوستانی ہندو ہیں وہ تکلیف دہ ہے اس کو انہیں اندازہ نہیں ہوگا۔یہاں تک اس کا انہیں احساس نہیں ہوا‘ ان کا یہ دعوی انفرادی طور پر ان لوگوں کے سونچ اور احساس سے مختلف ہے جو ایسا نہیں سونچتے۔ پچھلے اتوار کے روز میرٹھ جوکچھ انہوں کہاتھا اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔

سب سے پہلے’’ یہاں تک ہندو میرے بھائی ہیں‘‘ مگر وہ ہندوستانی جو ہندو نہیں ہیں؟کیا سرسنچالک کا بھائی چارہ سرحدوں او رمذہب کو روکنا؟پھر اس کے بعد کیا؟

مجھے امیدہے کہ کوئی دشمن نہیں۔دوسرا’’ ہندوستان میں میرے ساتھیوں کی مختلف کھانے پینے کی عادتیں ہیں‘ بھگوانوں کے پوجا کا طریقہ منفرد ہے ‘ فلاسفی‘ زبان او رتہذیب منفرد ہے‘‘ اور پھر وہ انہوں نے کہاکہ ’’ ایسے بہت سارے ہیں جو ہندو ہیں مگر انہیں معلوم نہیں ہے‘‘‘ یہ خاص طور پر مخصوص جارحیت ہے جو غیرہندوؤں کے لئے ان کی شناخت کی تجویز کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے‘ ہندو چاہئے اس کو مانے یا نا مانیں۔

یہ ایک زبردستی طاقت کے ذریعہ کیاجانے والا اقدام ہے۔اگلے یہ کہ اگر وہ غور فکر کے ساتھ یہ سونچیں کہ سرنچالک نے جو کہا وہ درست ہے اور وہ غلط ہیں۔جس سے حقیقت میں ان کی سونچنے کے حق اور خود احتسابی کی صلاحیت کا انکار ہوگا۔تاہم سرسنچالک کے بیان کا آخری حصہ قابل تشویش ہے جس میں انہوں نے کہاکہ ’ہندو نہیں ہیں‘آخر وہ کون ہیں۔

’’ صرف وہی حقیقی ہندوہیں جس بھارت ماتا ہو اپنی حقیق ماں مانتے ہیں‘‘ اب میں ہندوستان کو مادروطن قبول کرتا ہوں مگر میری ماں نہیں۔ماں کی جگہ کوئی اور ہرگز نہیں لے سکتا۔ لہذا مجھے یہ کہاں چھوڑیں گے؟کیا میں حقیقی ہندو نہیں ہوں؟سچ تو یہ ہے کہ سرسنچالک جو ہیں وہی میں بھی ہوں!

شائد سرسنچالک ماں او رمادر وطن کے فرق سے واقف نہیں ہیں؟ ماضی کے حیاتیاتی رشتہ کو آپ مسترد نہیں کرسکتے ۔

حب الوطنی کے جذبا ت کو آپ کو باندھتے ہیں‘ مگر ماں سے محبت ایک علیحدہ بات ہے۔آخر میں ہندوستانی مسلم‘ عیسائی ‘ سکھ ‘ جین بدھسٹ پارسی ‘ مذہب پر یقین نہیں رکھنے والوں اس سرزمین کو اپنے مادر وطن کے طور پرہی دیکھتے ہیں۔اب وہ ہندو نہیں ہے اور بننا بھی نہیں چاہیں گے۔

مگر وہ ہندوستانی ہیں اور یہی حقیقت ہے۔ صرف سرسنچالک ہی اس کی تعریف کرسکتے ہیں۔