پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی کراری شکست کیلئے جواسباب وجوہات سامنے آرہے ہیں اس میں دانستہ طور پر بھی کانگریس کا کردار سامنے آیاہے اور بعض مقامات پر علاقائی پارٹیوں کو ہرانے کیلئے کانگریس نے بی جے پی تک سے سمجھوتہ کیاہے ۔ اس کی اہم مثال آسام ہے جہاں کانگریس نے آل انڈیا یونائٹیڈڈیموکریٹک فرنٹ(Aiudf)کے ساتھ عین الیکشن کے دوران اتحاد کرنے سے اعلان کردیا اور اس کے بعد یو ڈی ایف کی تمام سیٹوں پر اپنی ہار نظر آنے کے بعد اس نے اپنا ووٹ بی جے پی کو ٹرانسفر کرادیا ۔
اے آئی یو ڈی ایف کے سربراہ مولانا بدرالدین اجمل نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ملت ٹائمز سے خصوصی بات چیت کے دوران کہاکہ گذشتہ پانچ سالوں سے ہم اپوزیشن اتحاد کا حصہ تھے اور ہر جگہ کانگریس کے ساتھ دیتے رہے ۔ اس دوران ہمیشہ اس بات پر اتفاق رہاکہ 2019 کا عام الیکشن آسام میں کانگریس اور یو ڈی ایف مشترکہ طور پر لڑے گی لیکن عین الیکشن کے دوران کانگریس نے اتحاد کرنے سے اعلان کردیااور کہاکہ ہند و ووٹ سارے منشتر ہوجائیں گے جس سے کانگریس کا شدید خسارہ ہوگا ۔ چناں چہ اس کے بعد ہم نے صرف تین جگہوں پر اپنے امیدوار اتارے جہاں سے ہمارے ایم پی تھی اور کانگریس کیلئے آسام کی گیارہ سیٹیں چھوڑی دی اور کہاکہ بقیہ تمام سیٹوں پر ہم کانگریس کی حمایت کریں گے کیوں کہ ہماری اصل لڑائی بی جے پی کے خلاف ہے ۔ کانگریس کی اعلی قیادت نے اس کے بعد کہاکہ ہم تینوں سیٹوں پر کمزور امیدوار اتاریں گے لیکن یہ وعدہ بھی جھوٹا ثابت ہوا اور اس نے تینوں جگہوں پر مضبوط امیدوار اتار دیئے جس کے نتیجے میں ووٹوں کا شدید بٹوارہ ہوا۔ انتخابات کے دوران کانگریس لیڈروں نے سرعام کہاکہ آسام میں ہماری پہلی کوشش اے آئی یو ڈی ایف اور مولانا اجمل کو نیست ونابود کرناہے ۔ کریم گنج لوک سبھا سیٹ پر یو ڈی ایف کے امیدور رادھے شام نے بی جے پی امیدوار کو سخت مقابلہ دیا لیکن 16 ہزار ووٹوں سے وہ ہار گئے اور اس کی بنیادی وجہ کانگریس رہی جس نے اپنی شکست کو دیکھتے ہوئے سارا ووٹ بی جے پی کو ٹرانسفرکرادیاتھا ۔ آسام کی بار پیٹا سیٹ پر یو ڈی ایف کے امیدوار ڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی تیسرے نمبر پر پہونچ گئے اور کانگریس یہاں سے جیتنے میں کامیاب ہوگئی حالاں کہ 2014 میں یہاں یو ڈی ایف کے ٹکٹ پر سراج الدین اجمل نے جیت حاصل کی تھی ۔ ڈھبڑی لوک سبھا سیٹ پر بھی کانگریس نے یو ڈی ایف کے سربراہ مولانا اجمل کو ہرانے کی بھر پور کوشش کی لیکن کامیابی نہیں مل پائی اور مولانا نے 2 لاکھ سے زائد ووٹوں سے جیت حاصل کی ۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے کہاکہ بی جے پی اور کانگریس میں کوئی بھی اب قابل بھروسہ نہیں ہے ۔ کانگریس صرف مسلم ووٹ چاہتی ہے ۔مسلم قیادت کانگریس برداشت نہیں کرپارہی ہے ۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آسام میں جن تین سیٹوں پر کانگریس کو جیت ملی ہے اس میں بنیادی کردار ہمارا ہی ہے کیوں کہ ہم نے اپنے امیدوار وہاں نہیں اتارے تھے اور کہ دیاتھا کہ 14 میں سے گیارہ سیٹوں پر یو ڈی ایف کانگریس کے ساتھ ہے اس لئے ہمارے تمام ووٹرس نے کانگریس کو ووٹ دیا ۔ اگر ان جگہوں پر یو ڈی ایف کے نمائندے ہوتے تو آسا م میں کانگریس کا کھاتہ بھی نہیں کھل پاتا۔ مولانا اجمل سے جب پوچھا گیا کہ کانگریس کے دھوکہ کے بعد آپ نے کیوں اپنا امیدوار کانگریس کے خلاف نہیں اتار ا تو انہوں نے کہاکہ کانگریس نے بالکل اخیر وقت میں دھوکہ دیا ۔ پرچہ نامزدگی داخل کرنے کا وقت ختم ہوچکاتھا دوسری اہم بات یہ تھی کہ ہم اس مرتبہ بی جے پی کو ہرانے کیلئے ووٹوں کا انتشار بالکل نہیں چاہتے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس نے ہمارے ساتھ دھوکہ آج وہ خود تاریخ کے بدترین دور کاسامناکررہی ہے ۔