ہائی کورٹ۔ہندو اور مسلم کی تمام شادیاں لوجہادنہیں ہوتی

کوچی۔کیرالا ہائیکورٹ نے کننور کے پڑوس میں رہنے والے سرتی اور انیس حامد کی بین مذہبی شادی کے متعلق دائر درخواست کی سنوائی کے دوران جمعرات کے روز اپنے جائزے میں یہ بات کہی ہے کہ ’’ وہ تمام شادیاں جو ہندو اور مسلمان کے درمیان میں ہوتی ہیں ان شادیوں کو لوجہاد قراردینا درست نہیں ہے‘‘۔عدالت نے مزیدکہاکہ’’ اس طرح کی شادیں و کوفروغ دینا چاہئے۔ یہاں پر پیار اور محبت کے لئے کوئی دیوار نہیں ہے‘‘۔

شادی کومنظوری دیتے ہوئے عدالت نے شروتی میلی دت کو اپنے شوہر انیس حامد کے ساتھ جانے کی منظوری دیدی ۔وہیں پر کننورکی سروتی کے تبدیلی مذہب اورشادی کے کیس کی سنوائی کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہاکہ اس قسم کی شادیوں کو برھاوا دینا چاہئے ’پیارمیں کوئی دیوارنہیں ہے سرتی او رانیس حامدنے ایک ساتھ پڑھائی کی ہے اور سالوں سے وہ ایک دوسری کی محبت میں گرفتار ہیں۔دونوں نے اپنے والدین کوبھی اس کے متعلق واقف کروایامگر شروتی کے والدین نے اس کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی‘شروتی نے مذہب اسلام اختیارکیااور اپنے کلاس میٹ کے ساتھ شادی کرلی۔

اسکے بعد شروتی کے والدین حبس بیجا کی درخواست کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے او رالزام عائد کیاکہ ان کی بیٹی کو ورغلاکر جبری طور پر مذہب اسلام اختیار کرایاگیا اور اس کے ساتھ اسلامی طریقے شادی کی گئی۔پہلی بار عدالت میں پیش ہونے کے بعد شروتی اپنے والدین کے ساتھ جانے کو تیارہوگئی۔ جب انیس نے اپنی بیوی کے متعلق حبس بیجا کی درخواست کی جس کے بعد شروتی کو اسکے فیملی کی تحویل سے آزاد کردیاگیا۔

شروتی جو کہ اب اپنے شوہر انیس حامد کے ساتھ کننور میں سکون کی زندگی گذاررہی ہے کو اس کے والدین نے تحویل کے دوران کوچی کے ایک یوگا سنٹر میں داخلہ دلایاتھا جہاں پر اسکے ساتھ زیادتی کی گئی او ر وہاں کے کونسلرس اور عملے موقف تبدیل کرنے کے لئے شروتی پر کافی دباؤڈالا۔اکٹوبر 10کے روز ہادیہ کے کیس میں بھی ہائی کورٹ نے اسی طرح کافیصلہ سنایا کہ’’ تمام بین مذہبی شادیوں کو لوجہاد قراردینا درست بات نہیں ہے‘‘۔

قبل ازیں اکٹوبر 7کو کیرالا ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ سے کہاتھا کہ اس کیس میں این ائی اے کی جانچ کی کوئی ضرورت نہیں ہے او رریاستی پولیس ہی اس معاملے کی تحقیقات کے لئے کافی ہے۔اپنے ایک حلف نامہ میں حکومت نے عدالت کو بتایاتھا کہ ریاستی پولیس نے جو تحقیقات کی ہے کہ وہ کافی ہے