مسلمانوں کی آبادی دس فیصد ہونے کے باوجود انتخابات اور ایوان میں نمائندگی نہیں
گجرات میں طبقہ واری اشتراک کی تیاری کے لئے کانگریس کی کوششوں میں پٹیل‘ دلت ‘ قبائیلی اور اوبی سی ہیں۔ مگر یہ اتفاق نہیں ہے پارٹی کے اس الیکشن فارمولہ میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیاگیا ہے۔ کانگریس میں مسلم لیڈرس کہتے ہیں کہ یہ جب کانگریس مسلم حمایتی کی شبہہ سے بچنا چاہتی ہے تو یہ ان کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے اور یہ بی جے پی ہندو وٹوں کو متحرک کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کا حصہ ہے۔
یہ ایک ایسا الیکشن ہے جس میں مذہب کے بجائے ذات پات کو بنیاد بنایاگیاہے۔ تاکہ اپنے پاٹیدار لیڈر ہاردیک پٹیل‘ اوبی سی لیڈر الپیش ٹھاکر( جو اب کانگریس میں ہیں) اور دلت جہدکار جگنیش میوانی کو جتاسکیں۔ اس کے علاوہ قبائیلی لیڈر چھوٹو واساو سے بھی سیٹوں کی حصہ داری کی گئی ہے۔کانگریس ان کے دیگر مطالبات کو قبول کرنے کے لئے ملاقاتیں بھی کررہی ہے‘ اس میں کچھ پارٹی کے منشور میں بھی شامل کئے گئے ہیں۔
دوسری طرف کانگریس نے مسلم لیڈرس سے کہہ دیا ہے کہ وہ منشور میں مسلمانو ں کے مطالبات کو شامل نہیں کریگی۔انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر بدرالدین شیخ نے کہاکہ ’’پہلی کوشش ہے کہ کانگریس کو ریاست گجرات میں دوبارہ برسراقتدار لایاجائے ‘ چاہئے مسلمان کانگریس کے ساتھ ہویا پھر پردے کے پیچھے سے کانگریس کی حمایت کریں‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘-دوسرے مسلمان لیڈرس سے ملاقات کے دوران شیخ نے مبینہ طور سے اس بات پر زوردیا ہے کہ کانگریس کی جیت اہم ہے’’ دیگر امور پر بعد میں توجہہ دی جائے گی‘‘۔
کانگریس لیڈرس نے یہ کہاہے کہ پارٹی کو مسلم ووٹس کی ضرورت نہیں ہے‘ اب مسلم کیا اپنا متبادل تلاش کریں گے یا پارٹی کے ساتھ رہیں گے۔وہیں پرپچھلے دوماہ میں راہول گاندھی نے ریاست کے مختلف منادر کا دورہ کیا مگر مسلم اکثریت والے علاقوں میں مہم نہیں چلائی۔ بی جے پی کے لئے چیف منسٹر وجئے روپانی مسلم اکثریت والے علاقہ جمال پور ۔ قادیہ میں روڈ شوکیا وہیں احمد آباد میناریٹی مورچ لیڈرس سورت میں مسلمانوں کے اندر انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا ہے جبکہ کانگریس نے چھ مسلم امیدواروں کو انتخابات میں اتارا ہے۔
سال2011کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب9.6فیصد ہے۔سماجی اور سیاسی جہدکار عبدالحفیظ لکھانی اور زبیر گوپالانی ‘ جس کا بڑے پیمانے پر کانگریس کی طرف جھکاؤ دیکھائی دیتے ہیں نے اس حکمت عملی کو قبول بھی کیاہے۔ ان لوگوں کو کہنا ہے کہ بی جے پی صرف اقتدار میں اس لئے ہے کیونکہ وہ کانگریس کو مسلم حمایتی پارٹی قراردیتی ہے۔ اگر اس بات کو قبول کرلیاجائے کہ کانگریس کا مسلمانوں کا عوامی سطح پردورہنا ایک ’’ نرم ہندوتوا‘‘ رویا کہاجاسکتا ہے اور انہوں نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوے کہاکہ پہلے بار کانگریس نے ’’ غیر جانبداری‘‘ کا ماحول بنارہاہے کہ بی جے پی ووٹ پولرائزیشن کی سیاست کی کوششوں کو روک سکے۔
لکھانی اور گوپلانی نے حکومت کی جانب سے کانگریس ایم پی احمد پٹیل کے مبینہ طور پر ائی ایس سے تار جوڑنے کی کوششوں کے حوالے سے کہا کہ حکومت کا دعوی ہے کہ ایک شخص ملازم تھا اور مبینہ طور پر اپریٹو ( جو گرفتار ہے)‘ لکھانی نے کہاکہ مگر ’’ طبقہ واری احتجاج نے بی جے پی کی اس حکومت عملی کو پوری طرح ناکام بنادییا ہے‘‘۔ ذرائع سے ملی خبر کے مطابق کل ہند مجلس مشاورت کے ایک اجلاس میں کہاگیا ہے کہ کانگریس کی حکمت عملی میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جانی چاہئے۔ انسانی حقوق کے جہدکار جوزار بندوق والا نے بھی یہ بات کہی ہے او ربتایا کہ وہ بھی اس نظریہ کی حمایت کرتے ہیں۔ دوسری جانب صوفی مسلم اور قانونی جہدکار انور شیخ نے بھی یہ کہا ہے کہ کانگریس کی غیر جانبداری کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ان کی قدیم حکمت عملی ہے تاکہ مسلمانوں کو سیاسی طور سے دور رکھا جاسکے۔
شیخ نے کہاکہ پارٹی اب ’’ نرم ہندوتوا ‘‘ کی طرف گامزن ہے۔مسلم ووٹوں پر کانگریس کے بھروسہ کاانداز لگانے کے لئے انڈین ایکسپریس نے کئی مسلم شہریوں سے اس ضمن میں بات کی تو ان لوگوں کے کانگریس کے حق میں ووٹ دینے کی بات کی ہے۔محمد امین سیٹھ جن کا تعلق گودھرا سے ہے اور وہ جوتوں کا کاروبار کرتے ہیں نے کہاکہ’’ یہ ضروری نہیں ہے کہ راہول گاندھی یا کوئی او رکانگریس لیڈر مسلم علاقوں میں انتخابات کے دوران جائے مگر ضروری یہ ہے کہ وہ ممکنہ طور پر غیر جانبداری سے انصاف کریں‘‘۔
ابراہیم کپاڈیہ جن کی واڈوڈرا کے منڈوی چوک میں کپڑوں کی دوکان ہے نے کہاکہ ’’ کانگریس تمام طبقے اور گروپس کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کررہی ہے‘ایسا نہیں کہ بی جے پی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں سے دوری بنائے ہوئے ہیں‘‘ اور احمد آباد کے ساکن مختار شیخ نے کہاکہ ’’ ایسے حالات میں کانگریس ایک بہترین موقع ہے‘ چاہئے کانگریس لیڈر مسلم بستیوں ‘ داڑھی او رٹوپی والے مسلمانوں ‘ برقعہ پوش خواتین سے انتخابات کے دوران دوری اختیار کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔وہیں پر مسلمانوں کا ریاست میںآبادی کے تناسب کی مناسبت سے دس فیصد ہیں‘ مگر انہیں انتخابات اور ایوان میں نمایاں جگہ فراہم نہیں کی گئی۔ مسلم اراکین اسمبلی 1980میں 12اراکین اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور یہ 1985میں کم ہوکر اٹھ ہوگئی اور اب تک پانچ سے آگے نہیں بڑھی۔
You must be logged in to post a comment.