کینڈا کی ایک سیاح نے بتایا کہ کس طرح پیرس پولیس ہیڈکوراٹر میں افیسروں نے اس کی اجتماعی عصمت ریزی کی‘ جنھوں نے شراب نوشی کے لئے اس پر دباؤ ڈالا اور سر کو ایک ڈسک سے ٹکردی۔

ایک کینڈین سیاح نے خلاصہ کیا کہ پیرس کے ’’ نامور پولیس ہیڈکوارٹرکے پولیس افسروں نے انہیں شراب پی لا کر اس کی عصمت ریزی کی۔املی اسپان ٹان نے سال2014اپریل کو فرانس کی درالحکومت میں پیش ائے واقعہ کی تفصیلات پیش کی۔اس کی ملاقات فرانس کے تین پولیس افیسروں سے شہر کے گالوے ائیریش پب میں ہوئی اور اس نے بات چیت کے دوران سینا ندی پر بنائے گئے قومی پولیس کے ہیڈ کوارٹر جو پیرس میں موجودہے سے اپنے اٹوٹ محبت کا تذکرہ کیا۔

مذکورہ مبینہ متاثرہ نے دعوی کیاہے کہ اس کو شراب پلائی گئی اور پھر اس کے بعد سر ٹیبل پر مارا گیا اور اس کے بعد متواتر طریقے سے عزت لوٹی گئی۔ اونٹاراؤ میں واقعہ اپنے گھر سے فرانس 3ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اسپاٹن نے کہاکہ وہ کئی فلموں میں اس عمارت کودیکھنے کے بعد اس کے متعلق کافی ’ متوجہہ ‘ ہوئی تھی۔ وہ ایسا موقع گنوانا نہیں چاہتی تھی جس کا مشاہدہ کرنے کا موقع ایک افیسر کی جانب سے فراہم کیاجارہا ہے۔

اس نے کہاکہ جب اس کو بڑی مقدار میں زبردستی شراب پلائی جارہی تھی تو اس وقت وہ اس کا موڈ خراب ہوگیا۔ فرانس 3ٹی وی سے اس نے کہاکہ ’’ میرے لئے کافی مشکل ہوگیاجب میں انہیں ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے نہیں دیا‘۔

ان لوگوں نے میراچہرہ ڈسک پر مارا جس کے بعد میں سکتہ ہوگئی ‘ میری آنکھوں میں تارے ناچ رہے تھے۔ اس کے بعد مجھے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں کچھ بھی دیکھنے سے قاصر تھی جبکہ وہ لوگ میرے عقب میں کھڑے تھے۔

اسپاٹن کا دعوی ہے کہ ٹیبل پر اس کا سر رکھ کر متعدد مرتبہ اس کی عصمت لوٹی گئی اس کے بعد باہر سڑک کے اس کو پھینک دیاگیا۔ایک خاتون پولیس افیسر ہیڈکوارٹر کے باہر اس کو پڑا دیکھ مبینہ متاثر ہ کو قریب کے اسپتال میں لے گئی جہاں پر ڈاکٹر نے خدشہ ظاہر کیاکہ اس حالت جنسی استحصال کے سبب ایسی ہوئی ہے۔

اسپاٹن نے عصمت ریزی کی ایک شکایت درج کرائی اور اپنے گھر کینڈا واپس لوٹ گئی۔تین عہدیدار اس ضمن میں گرفتار کئے گئے ‘ درخواست کے بعد طویل کاروائی کے بعد ٹورسٹ واپس جانے کے بعد ان میں سے دوکے خلاف سنوائی کے لئے تاریخ اب تک مقرر نہیں کی گئی۔

متاثرہ کے وکیل صوفیہ عبادیہ نے کہاکہ اتنے وقفہ گذر جانے کے بعد بھی میرے موکل انصاف سے محروم ہیں۔ اسپاٹن کے کپڑوں سے ڈی این اے حاصل کرنے کے باوجودبھی تیسرے خاطی کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی۔ انہوں نے کہاکہ کتنی بھی پردہ پوشی کرلی جائے اس کو عصمت ریزی ہی کہیں گے۔