کشمیر میں عزداری کے جلوسوں کی بے حرمتی۔ بقلم شکیل شمسی

شہیدان کربلا کی یاد میں ساری دنیا میں عزاداری کے جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ بالخصوص ہندوستان میں تو اتنے جلوس اٹھتے ہیں کہ جن کی گنتی مشکل ہوجاتی ہے۔۔ کرگل سے لے کر کیرل تک کوئی شہر ایسا ہیں ہے جہاں محرم کے سلسلے میں جلوس نہ نکلتے ہوں یا جلسوں اور مجالس کا انعقاد نہ ہوتا ہو‘ پورے ہندوستان میں ان پر کہیں کوئی پابندی نہیں ہے مگر پاکستان میڈیانے ان سب جلوسوں کو نظر انداز کرکے کشمیر کے ایک مخصوص علاقے میں جلوس نکالنے کی اجازت نہ دئے جانے کو حکومت ہند کا بہت بڑاظلم قراردینے کی کوشش کی ‘ حالانکہ کشمیر کے ہی کر گل‘ لیہہ‘ اور جموں جیسے علاقوں میں جلوس نکالنے پر کوئی پابندی نہیں تھ اور ان جلوسوں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔

اصل قضیہ یہ ہے کہ سری نگر کے مشہور ترین جلوس ذوالجناح پر گذشتہ تیس برس سے پابندی عائد ہے ‘ اس جلوس کو کبھی اتنی اہمیت حاصل تھی کہ ریاست کے وزیر اعلی خود شبیہ ذوالجناح کی لگام پکڑ کر جلوس کے ساتھ ساتھ چلتا تھا‘

لیکن جب تیس سال پہلے دہشت گردی کے عذاب نے کشمیر کے عوام کی زندگی اجیرن کی اور جب بندوق کے کلچرنے لہو کے آبشاری جاری کئے تو اس اہم ترین جلوس پر بھی اس کا اثر پڑا او ریہ جلوس ایک مذہبی جلوس نہ رہ کر ہندوستان کی مخالفت کرنے والوں کی ایک ریالی بن گیا‘

جس کی وجہہ سے حکومت کو اس پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ ہمارے خیال میں عزداری کے جلوس پر لگی اس پابندی کا اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنھوں نے عالمی شہرت کے حامل اس جلوس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی جلوس کو ایک سیاسی مظاہرہ بنانے کی کوشش کی او رامام حسین یا کربلا کے معلق گفتگوکرے کے بجائے اس میں علیحدگی پسند انہ نعرے لگانے شروع کردئے۔

امام حسین کا سوگ بھلا کر ہندوستانی حکومت کے خلاف اپنے بیان دینا شروع کردئے۔ اس کے علاوہ پرانے شہر سے نکلنے والے سب ہی جلوسو ں میں جنگجو گھسنے لگے او رمخالف ملک نعرے لگاکر ذکر امام حسین کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے لگے۔

مذہبی جلوسوں کے ہندوستان مخالف ریالیوں میں تبدیل ہوجانے کو حکومت خاموشی سے تو دیکھ نہیں سکتی تھی‘ اس لئے اس نے سری نگر کے پرانے شہر سے نکلنے والے ان تمام جلوسوں پر پابندی عائد کردی جن میں نوحے‘ سلام ‘ منقبت او رمرثیہ خوانی کے بجائے پاکستان نوازی کے نغمے گائے جانے لگے تھے ۔

ظاہر ہے کہ اس پابندی سے ان عزداروں کے دلوں کو تکلیف پہنچی ہے‘ جو خلوص کے ساتھ امام حسین کی یاد مناتے ہیں۔ یہی لوگ ہر سال محرم کے جلوسوں پر عائد پابندی کو توڑ کر جلوس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور خود کو گرفتاریوں کے پیش کرتے ہیں‘ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی سادی لوح مظاہرے کے درمیان بھی وہ لوگ گھس جاتے ہیں ان کی نہ توامام حسین سے عقیدت ہے اور نہ کربلا کے شہیدوں سے ۔

ان ہی لوگوں نے جلوسوں پر لگی پابندی کے خلاف اس بار جو احتجاجی جلوس اٹھایا اس میں ایک مقامی دہشت گرد برہان وانی کی تصویر بھی شامل کی۔

اس حرکت کو دیکھنے کے بعد یہ بات بلکل واضح ہوگئی کہ علیحدگی پسند عناصر محرم کے جلوسوں کا سیاسی استعمال کرکے عزداروں کے جذبات اور احساسات کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔

یہ سوچنے کی بات ہے کہ برہانی وانی کا محرم کے جلوس سے کیا لینا دینا تھاجو اس کی تصوئیر کو جلوس عزا میں شامل کیاگیا؟ہر سال محرم کے دورا ن اور عزاداروں کے مابین تصادم ہونا اب ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ جس کو پاکستانی میڈیا خوب بھٹانے کی کوشش کرتا ہے۔

جبکہ حقیقت یو یہ ہے کہ کشمیر میں جلوس سہائے عزا پرکوئی پابندی نہیں ہے بلکہ ملک مخالف نعرے لگانے پر پابندی ہے۔اگر محروم کے جلوسوں کو حکومت نشانہ بناتی تو کشمیر کے دوسرے علاوں میں جلوس اٹھائے جانے کی اجازت کیوں دی جاتی ؟

خودسری نگر کے جڈی بل علاقے میں آغا سید حسن کی قیادت میں جلوس نکالاگیا اس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی او رادھر کرگل میں توپورے شہر میں ہی ماتمی جلوسوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا رہا ہے۔

اگر حکومت جو جلوسہائے عزا سے کوئی پریشانی ہوتی تو پھر وہ صوبے میں کہیں جلوس اٹھنے نہیں دیتی۔ہمارا تو کشمیری مسلمانوں کو یہی مشورہ ہے کہ وہ ان عناصر سے دور رہیں جو مذہبی اجتماعات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرکے ان کاتقدس پامال کرتے ہیں