نئی دہلی۔ سرکاری طور پرجاری کردہ ڈاٹا کے مطابق سال2015کے مقابلے جموں اور کشمیر میں عام شہریوں کی اموات میں167فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ سالوں میں نظم ونسق کی برقراری کے لئے شروع کی گئی مہم کی یہ قیمت سمجھی جارہی ہے۔
وزارت داخلہ کی سالانہ رپورٹ برائے2017-18میں اس بات کا بھی اعادہ کیاگیا ہے کہ حالیہ سالوں کے مقابہ اس سال سکیورٹی جوانوں کی اموات میں بھی 2.44فیصد کی کمی ائی ہے۔ رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے گروپس متنازع وادی میں عام شہریوں کے احتجاج سے نمٹنے کے لئے زائد پولیس فورسس کی تعیناتی پر سوال کھڑا کررہے ہیں۔
ریاست کی پولیس اور فوج نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعوی کیاہے کہ زیادہ تر اموات اس وقت پیش ائے ہیں جب جوابی کاروائی کے دوران عام شہری غیر ضروری مداخلت کرتے ہوئے فوج کو کاروائی سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ’’ پچھلے سال کے مقابلہ سال2017میں دہشت گردانہ تشدد اور عام شہریوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے‘ تاہم سکیورٹی فورسس کی اموات میں کمی ائی ہے‘‘۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ’’ 2016کے مقابلے مذکورہ سال میں دہشت گردانہ واقعات میں6.21فیصد کا اضافہ ہوا ہے‘ اور دہشت گردوں کے مارے جانے کے واقعات میں42فیصد اضافہ ہوا ہے‘‘۔
جولائی2015میں حز ب المجاہدین کے دہشت گرد برہان وانی کے سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد کشمیر میں عام شہریوں کی موت میں اضافہ ہوا ہے ‘ او راس کی وجہہ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنا ہے۔ایک سو سے زائد لوگ اس وقت مارے گئے جب پتھر بازوں کے خلاف فوج نے جوابی کاروائی کی ‘ان میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ فورسس کی جانب سے پیلٹ گنس کے استعمال کے بعد سینکڑوں شہریوں کی بینائی کو نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹ میں لفٹ وینگ شدت پسندی( ماؤسٹ) کے واقعات کے متعلق کہاگیا ہے کہ اس میں 20فیصد کی کمی ائی ہے2016میں 1,136سے گھٹ کر یہ 2017میں 908ہوا ۔فرقہ وارانہ واقعات کی فہرست جاری کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ 822واقعات رونما ہوا جس میں111لوگوں نے اپنی زندگی گنوادی اور 2384لوگ ملک بھر میں زخمی ہوئے۔
سالانہ رپورٹ مانا جاتا ہے کہ ایک ہوم منسٹری کا ایک رپورٹ کارڈ ہوتا ہے جس میں محکمہ کی خامیوں ‘ خوبیوں اور جاریہ پراجکٹس اور سرگرمیو کا سالانہ سطح پر جائزہ لیاجاتا ہے