کشمیریوں پر ’ انتقامی کاروائی‘ میں حملے

دائیں بازور گروپس پرمشتمل ہجوم ملک میں پلواماں حملے کے پیش نظر کشمیریوں کو نشانہ بنارہا ہے ‘ ان کے بچاؤ میںآگے آنے والی سکھ کمیونٹی کا یہ کہنا ہے۔

سری نگر۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں جب 18سالہ کشمیری طالب علم شاداب احمد اور اس کے ساتھیوں پر شمالی ہند کی ریاست ہریانہ میں پچھلے ہفتہ ہجوم نے حملہ کیاوہ اس پوری تیار ی میں تھے۔

گروپ میں شامل چار اور تمام کشمیری نے اس گینگ کے حملے میں جان بچاکر اپنے فلیٹ پر پہنچے اور خود کو گھر میں بند کرلیا۔گھر کے باہر کھڑا ہجوم جب چھٹ گیا‘ مگر اپارٹمنٹ میں رہنے والوں نے فیصلہ کیاتھا کہ حالات کشیدہ ہیں اور دوبارہ حالات معمول پر آنے تک انہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کریں۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیرکے پلواماں میں14فبروری کے روز پیش ائے خود کش حملے میں 42جوانوں کی شہادت کے بعد ملک کے مختلف مقامات پر شاداب اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ پیش ائے حملے کے طرز پر کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔

ہندوستان کے سکیورٹی فورسس پر یہ ایک بے رحمانہ حملہ تھا جس کے فور ی بعد کشمیریوں کو ہندوستان کی سرزمین پر ہی نشانہ بنائے جانے کے واقعات رونما ہونے لگے۔شاداب انجینئرنگ سال دو م کا ایک طالب علم نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ہم قریب ساتھ کشمیری وہاں پر تھے۔

ایک او رکشمیری دوست نے ہمیں طلب کیااور ہم سے استفسار کیاکہ ہم پنچاب میں موہالی جائیں گے۔ اس نے کہاکہ وہاں پر محفوظ مقام رہے گا۔ ہم کار میں سوار ہوکر وہاں پر گئے‘‘۔ یہاں پر شناخت چھپانے کے لئے عرفیت کا استعمال کیاگیا ہے۔

جب موہالی پہنچے تو شاداب اور اس کے دوستوں کو حیران کردینے والے واقعہ کاسامنا کرنا پڑا۔ سکھ سماج کے والینٹرس نے وہاں پر ان کا استقبال کیا‘ ان کے لئے کھانے کااہتمام کیا ‘ گردوارہ میں انہیں پناہ دی اور ان کے گھر واپس جانے کے لئے سوار کا انتظام کیا۔

شاداب نے کہاکہ’’سکھ والینٹرس نے ہمارے کھانے اور رہنے کا اہتمام کیا اور سو لوگوں کے لئے 13گاڑیوں کا بھی انتظام کیا تاکہ ہم ایک ساتھ گھر جاسکیں‘‘۔

ہزاروں کی تعداد میں کشمیری ملک کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں‘ انہیں اس بات کااحساس ستا رہا ہے کہ وہ نفرت پر مشتمل کاروائی کاشکار ہورہے ہیں۔ شاداب کی طرح سینکڑوں طلبہ ہیں جو ہماچل پردیش ‘ اتراکھنڈ اور ملک کی مختلف ریاستوں سے اپنے گھر کشمیر واپس ہورہے ہیں۔

ہجوم کے ہاتھوں کشمیریوں کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات کا ویڈیو سوشیل میڈیاپر وائیرل ہونے کے بعد قومی انسانی حقوق کمیشن اورایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کی مذمت کرتے ہوئے حکومت ہند سے کہاکہ وہ عام کشمیریوں کی جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنانے کاکام کریں۔

حکومت ہند نے کہاکہ وہ ان کی حفاظت کے موثر اقدامات اٹھارہی ہے اور کشمیر کے باہر دوسری ریاستوں میں رہنے والے کشمیریوں کے تحفظ کابھی یقین دلایاہے ۔مگر اس کے برخلاف ہجومی تشدد کے برھتے واقعات ‘ جس میں ہندو دائیں بازوگروپس شامل ہیں کی کہانی کچھ اس طرح کا ہے کہ تشدد کا شکار کشمیریوں کی مدد کے لئے عام ہندوستانی آگے آرہے ہیں۔

اس میں سب سے آگے سکھ گروپ ‘ جیسے خالصہ ایڈ جس کا قیام یوکے میںآیاہے ‘ نے پریشان حالی کشمیری اسٹوڈنٹس کو گردوارہ میں پناہ دی اور انہیں کے لئے قیام او رطعام کا اہتمام کیا۔ خالصہ ایڈ کے ڈائرکٹر امرپریت سنگھ نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ہمارا مذہب انسانیت کا درس دیتا ہے‘‘۔

انہو ں نے مزیدکہاکہ ’’ کچھ غیرسماجی عناصر جنھوں نے ان طلبہ کوہراساں کیاکہ ‘ انہیں اس بات کااحساس نہیں ہونا چاہئے کہ وہ تنہا ہیں اور انہیں اسبات کا احساس ہونا چاہئے انسانیت ابھی زندہ ہے‘‘۔

خالصہ ایڈ نے کہاکہ ان کے والینٹرس نے بھروسہ دلایا ہے کہ ہجومی حملے کے بعد 300کشمیری مسلم اسٹوڈنٹس کو محفوظ طریقے سے ان کے گھر پہنچادیاجائے گا۔

سنگھ نے کہاکہ ’’ جب سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ ہم مدد کررہے ہیں‘ ہمیں پریشان حال اسٹوڈنٹس کے بے شمار فون کالس وصول ہورہے ہیں‘‘۔

ان کی مدد کے لئے کئی کشمیری مسلم میڈیکل او رقانونی مشاورات میں وہاں کے مقامی سکھوں کو رعایت کی پیشکش کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ سکھ سماج ہندوستان کا ایک اقلیتی طبقے ہے