ممبئی۔ مبینہ طور پر کم عمر لڑکیوں کے ساتھ چندرا پور کے قبائیلی گرلز ہاسٹل عصمت ریزی کے ضمن میں گرفتاریاں ریاست میں بچوں کی دیکھ بھال کے لئے چلائے جانے والے اداروں کی خراب حالات کو اجاگر کررہے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں سے ریاستی حکومت کی نگرانی اور خانگی طور پر چلائے جانے والے اداروں ‘ اشرم اسکولوں اور بچوں کی دیکھ بھال والے اداروں میں اسطرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
دیہی علاقوں میں سماجی کارکنوں نے دعوی کیا ہے کہ معمولی تبدیلیاں ائی ہیں۔سال2011کے دوران پنویل میں شیلٹر ہوم کے اندر معصوم کی عصمت ریزی او رقتل کے بعد ریاست میں اس طرح کے اداروں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کی ہدایت جاری کی گئی تھی۔
بعدازاں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات کے بعد 2018میں ریاست نے خاتون وارڈن کے تقرر کے احکامات جاری کئے جس کو لازمی طور پر لڑکیوں کے ساتھ رہنے ہوگا‘ بچوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے ریاستی ماہرین کی ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایاگیا ‘ بچوں کے حقوق کے لئے عملے کو حساس بنانے کاکام کیاگیا۔
ٹاٹا انسٹیٹوٹ برائے سوشیل سائنس کی ایکشن ٹیم کی نگرانی کرنے والے محمد طارق نے کہاکہ ’’ کئی ہومس غیر قانونی طریقے سے چلائے جارہے ہیں اور جن کی کوئی جوابدہی نہیں ہے‘‘۔
یہ وہی ادارہ ہے جس نے بہار کے 35اضلاعوں کے 110شیلٹرس اور رہائشی گھروں جس میں مظفر پور بھی شامل تھا جہا ں پر 34لڑکیو ں کے ساتھ مبینہ طور پر عصمت ریزی کا واقعہ پیش آیاتھا۔