کرناٹک میں دلتوں اور مسلمانوں کی متحدہ حکمت عملی

اوپینین پولس میں معلق اسمبلی کی باتیں گمراہ کن ۔کانگریس کو ضرورت پڑنے پر دیوے گوڑاکی تائید ممکن ، بی جے پی کا مودی پر انحصار

حیدرآباد ۔ 25 ۔ اپریل (سیاست نیوز) کرناٹک میں بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کیلئے دلتوں اور مسلمانوں پر کانگریس پارٹی نے مکمل طور پر انحصار کیا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ دیئے جانے کی کوششوں کے دوران کانگریس نے دیہی سطح پر فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف شعور بیداری کیلئے غیر سرکاری تنظیموں کی خدمات حاصل کی ہے، جس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔ انتخابات کے بارے میں زیادہ تر اوپنین پول معلق اسمبلی کے حق میں آئے ہیں جبکہ کانگریس پارٹی کو یقین ہے کہ وہ سادہ اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار حاصل کرے گی۔ سدا رامیا حکومت کی کارکردگی سے عوام مطمئن ہیں اور میڈیا میں معلق اسمبلی کے بارے میں قیاس آرائیوں کے ذریعہ عوام میں الجھن پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق معلق اسمبلی کی صورت میں جنتا دل سیکولر میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان انتخاب کے مسئلہ پر اختلافات ابھر سکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کانگریس کی تائید کے حق میں ہے جبکہ ان کے فرزند ایچ ڈی کمار سوامی اقتدار کیلئے بے چین اور بی جے پی سے معاہدہ کرتے ہوئے چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرسکیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دیوے گوڑا نے میڈیا میں بی جے پی سے خفیہ معاہدہ سے متعلق اطلاعات کو مسترد کردیا، ان کا کہنا ہے کہ معلق اسمبلی کی صورت میں بی جے پی کے بجائے کانگریس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف کمزور طبقات اور مسلمانوں کے ووٹ کانگریس کے حق میں متحد کرنے کیلئے مختلف غیر سرکاری تنظیمیں متحرک ہوچکی ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ قومی سطح پر کام کرنے والی دلتوں اور اقلیتوں کی اہم تنظیموں کے ذمہ دار کسی تشہیر کے بغیر رائے دہندوں خاص طور پر دیہی علاقوں کے عوام میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں ہونے والے نقصانات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ 225 رکنی کرناٹک اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لئے 113 نشستوں کی ضرورت ہے اور کانگریس کو یقین ہے کہ اسے کم سے کم 110 نشستیں ضرور حاصل ہوں گی ۔ ہم خیال چھوٹی جماعتوں کی تائید سے حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے۔ اسی دوران ریاستی وزیر آر روشن بیگ نے جو شیواجی نگر اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کر رہے ہیں، انتخابی اوپنین پولس کو گمراہ کن قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کمزور طبقات اور اقلیتوں نے منظم رائے دہی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ووٹوں کی تقسیم کو روکا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ اوپنین پولس کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2019 ء کے بارے میں ابھی سے پیش قیاسی کی جارہی ہے۔ بی جے پی نے بعض میڈیا گھرانوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اوپنین پولس کے ذریعہ باقاعدہ انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ روشن بیگ نے جنتا دل سیکولر کو کے سی آر اور مجلس کی تائید پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک میں کے سی آر کا کوئی اثر نہیں۔ جن علاقوں میں تلگو داں رائے دہندے موجود ہیں، ان کی اکثریت کا تعلق آندھراپردیش سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے سی آر کی جے ڈی ایس کو تائید یا انتخابی مہم سے کانگریس کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ روشن بیگ نے کہا کہ مجلس نے عوامی ناراضگی سے بچنے کیلئے خود کو مقابلہ سے دور رکھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی نامور مذہبی شخصیتوں نے کرناٹک میں مجلس کے مقابلہ کی مخالفت کی جس کے بعد حیدرآباد کی مسلم جماعت نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینے کی صورت میں مجلس کو حیدرآباد کے مسلمانوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا ۔ جبکہ تلنگانہ اسمبلی کے انتخابات قریب ہیں، لہذا مقامی مسلمانوں کی ناراضگی کے خوف سے مجلس نے کرناٹک کی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ ترک کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک میں 12 فیصد مسلمان پوری طرح کانگریس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک کے عوام فرقہ پرست طاقتوں کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ بی جے پی نے انتخابی مہم کے سلسلہ میں وزیراعظم نریندر مودی ، چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ اور قومی صدر امیت شاہ کی ریالیوں کا منصوبہ بنایا ہے ۔ وزیراعظم کے دورہ کے آغاز کے بعد کرناٹک کا سیاسی اور انتخابی منظر تبدیل ہونے کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔