کرناٹک لینچنگ۔ واٹس ایپ پر سرخ کار میں بچہ چوروں کے گھومنے کی افواہ کے ادھا گھنٹہ بعد ائی ٹی ملازم کاقتل 

اتوار کے روز ہجومی تشدد کے دنوں بعد ‘ مورکی اور اس کے اطراف واکناف کے علاقوں میں کشیدگی کاماحول ہے۔ گاؤں والے برہم ہیں کہ پچھلے دونوں میں تیس لوگوں کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔
مورکی۔’’سرخ کار میںآنے والے ان لوگوں کو بھاگنے کاموقع نہیں دیاجائے۔ یہ لوگ بچہ چور ہیں‘‘۔یہ وہ مسیج ہے جو ایک ویڈیو جس میں چار لوگوں کو اسکولی بچوں میں چاکلیٹ تقسیم کرتا ہوا دیکھایا گیا ہے مورکی او رضلع بیدار کے اطراف واکناف کے گاؤں میں جمعہ کے روز واٹس گروپ میں پھیلایاجارہا تھا۔ اس کے ادھے گھنٹہ بعد ایک سافٹ ویر انجینئر کا قتل اور اس کے دیگر تین ساتھیوں کو مورکی میں گاؤں والوں نے حملہ کرکے شدید طور پر زخمی کردیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے واٹس ایپ مسیج کاپتہ چلالیا ہے جو اورادھ تعلقہ کے ہنڈی کیرا گاؤں کا رہنا والا کسان منوج پٹیل نے بھیجا تھا۔ اس کے علاوہ 30دیگر لوگوں کی بھی اب تک گرفتاری عمل میں ا چکی ہے۔کمال نگر سرکل کے سرکل پولیس انسپکٹر دلیپ ساگر نے کہاکہ ’’ منوج پٹیل کے بھڑکاؤمسیج کی وجہہ سے ہجوم کے ہاتھو ں قتل کا واقعہ پیش آیا ہے۔ پٹیل ایک کسان ہے جو کنسٹرکشن کا کام بھی کرتا ہے۔

وہ نصف درج کے قریب گروپس کا ایڈمن بھی ہے۔ اس نے یہ بھڑکاؤمسیج مورکی اور اس کے اطراف واکناف کے گاؤں میں واٹس ایپ گروپ میں بھیجا تھا۔ کہ یہ لوگ بچوں کا اغوا کرنے والے ہیں انہیں بھاگنے کا موقع نہیں دیاجائے۔ جس کی وجہہ سے ان لوگوں کا تعقب اور ان پر حملہ کیاگیا ۔

اس کے مسیج نے حملے کے اکسایا‘‘۔ متوفی کی شناخت حیدرآباد میں ملک پیٹ کے ساکن 32سالہ محمد اعظم کی حیثیت سے ہوئی ہے‘ جو کے گوگل کے پراجکٹ پرکام کرنے والے سافٹ ویر انجینئر بھی تھے۔جبکہ دیگر دو زخمیوں نور محمد عمر 30اورمحمد سلمان عمر20حیدرآباد کے متوطن ہیں اور تیسرا شخص ایک قطری شہری سالہم عیدال کوبیسی عمر38سال ہے

۔رشتہ داروں کے مطابق جمعہ کے روز4:30کے قریب اوراد تعلقہ کے ہنڈی کیرا گاؤں میں ایک اسکول کے قریب چائے کے لئے یہ لوگ روکے‘ جب انہو ں نے دیکھا کہ اسکول کے کچھ بچے اپنے گھر کی طرف جاری جارہہے تو ’’ سالہم نے بیرونی ملک کے چاکلیٹ مذکورہ بچو ں کوپیش کئے‘ جو اس کے ساتھ تھے‘ تاہم چوکسی اختیار کرتے ہوئے یہ خبر پھیلادی کہ کچھ اجنبی لوگ بچوں کوچاکلیٹ کالالچ دے رہے ہیں اور فوری طور پر لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے‘‘کوبائیسی کی اہلیہ زیبا النسا ء نے یہ بات بتائی۔

چارلوگوں کو خطرے کا احساس ہوا تو جس گاڑی میں وہ سوار کررہے تھے اس میں فرار ہوگئے مگر اسی دوران لوگوں نے ان کے ویڈیو اور تصوئیریں بنائیں اور واٹس ایپ پر پھیلادیا۔

فوری مسیج وائیرل ہوگیا۔جیسے ہی یہ لوگ مورکی گاؤں پہنچے جوہینڈی کیرا سے بیس کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے گاؤں والوں نے مبینہ طور پر کاٹا ہوا درخت سڑک پر ڈال کر راستہ بند کردیا۔ ا ن کی گاڑی ایک گڑھے میں گر گئے اور ہجوم نے ان لوگوں کو کھڈے سے نکال کر ان کی پیٹائی شروع کردی۔

پولیس کے مطابق45منٹ تک یہ حملہ جاری رہا۔ ایک ویڈیو میں انسپکٹر دلیپ ساگر ہجوم سے یہ التجا کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں ۔ ساگر نے کہاکہ ’’ جب ہم موقع پر پہنچے ‘اس وقت تک ایک شخص کی مارپیٹ میں موت واقع ہوچکی تھی۔

کار سے باہر نکالنے کے بعد دیگر تین لوگوں پر ہجوم پتھر او رلاٹھیاں بر سارہا تھا۔ تصور کریں 4سے پانچ سو لوگ لاٹھیا ں اور پتھر برسارہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہاکہ دس پولیس والوں جس میں وہ خود شامل تھے متاثرین کا اپنے گھیرے میں لینے کی کوشش کررہے تھے‘ مگر ہجوم ان پر بھی حملہ کررہا تھا۔

ساگر نے کہاکہ ’’ ہجوم نے پولیس کو اس لئے نشانہ بنایا کیونکہ وہ متاثرین کوبچانے کی کوشش کررہے تھے۔

کچھ لوگوں نے ہم پر لاٹھیوں سے حملہ کیا۔ ایک اے ایس ائی کوپیر میں فریکچر آیا‘ جبکہ دیگر پانچ کو سر پر شدید مارلگے ہیں۔ہم باہر نکلنے کے لئے آسانی کے ساتھ بھیڑ پر فائیرنگ کرسکتے تھے مگر اس سے حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ تھا‘‘۔

انہوں نے کہاکہ ’’ ہجوم کے سر پر خون سوار تھا اور یہ ہمارے لئے بھی کافی خوفناک لگ رہا تھا‘ اسی وجہہ سے ہمیں اپنی زندگی کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔

میں نے لوگوں سے انہیں جانے دینے کی گذار ش کی ۔ میں نے اس سے کہاکہ وہ بچے چوری کرنے والا نہیں ہے ‘مگر ہجوم سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ برہم تھے اور ان لوگوں کو جان سے ماردینا چاہتے تھے۔

ہمیں ترجیحات میں متاثرین کووہاں سے نکال کر انہیں اسپتال پہنچانا تھا ‘ لہذا ہم نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی ۔ ہم نے کسی بھی طرح تین لوگوں کو ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا‘‘۔اتوار کے روز ہجومی تشدد کے دنوں بعد ‘ مورکی اور اس کے اطراف واکناف کے علاقوں میں کشیدگی کاماحول ہے۔

گاؤں والے برہم ہیں کہ پچھلے دونوں میں تیس لوگوں کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔پولیس کی دوٹیمیں گاؤں میں گشت کررہی ہیں ‘ تاکہ خاطیوں کی شناخت کی جاسکے۔ اطراف واکناف کے علاقوں میں بھی پولیس دھاوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے‘ جہا ں پر کچھ لوگوں کے چھپے رہنے کی اطلاعات ہیں۔

درایں اثناء پولیس کے سامنے دیہاتی لوگ ایک بے ہودہ دعوی کررہے ہیں کہ گاؤں والوں نے ان پر حملہ اس لئے کیونکہ ان کی کار سے موٹرسیکل سوار ایک گاؤں والے شخص کوٹکر لگی تھی۔ ایک پولیس افیسرنے کہاکہ’’ ایساکوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

گاؤں والوں نے سڑک کا راستہ بند کرنے کے لئے قریب کی ایک ہوٹل کے ٹیبل اور لکڑے کا استعمال کیا۔ کار تیزرفتار سے چلائی جارہی تھی کیونکہ ہنڈی کیرا گاؤں سے کچھ لوگ موٹرسیکل پر ان کاتعقب کررہے تھے۔ جیسے ہی سڑک پر کھڑے رکاوٹوں سے بچنے کی ڈرائیور نے کوشش کی گاڑی پلٹ گئی۔

موٹرسیکل کا کوئی حادثہ اس میں شامل نہیں ہے‘‘۔ جولائی6سے 9تک سلسلہ وار رپورٹس کی انڈین ایکسپریس نے جانچ کی جس میں پندرہ واقعات میں 27لوگوں کا قتل کردیا گیا ہے او روہ بچے چوری افواہوں پر یہ تمام واقعات پیش آئے ہیں۔

مئی 9کے روز اسی طرح ایک واقعہ تاملناڈو میں بھی پیش آیا جس میں65سالہ ایک عورت کو ہجوم نے قتل کردیا۔