کشمیر۔کتھوا کیس کے خاطیوں کی گرفتاری کے لئے جموں اور کشمیر پولیس کی جانب سے تشکیل دئے گئے خصوصی تحقیقاتی دستے( ایس ائی ٹی) میں شامل واحد خاتون پولیس عہدیدار ڈی ایس پی شویتامبری شرما نے کہاکہ ان کی تحقیقات کے دوران راسانا گاؤں میں داخل ہونے سے روکنا نے ہجوم نے محروس بنالیاتھا ۔
سری نگر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ لوگوں نے کتھوا میں اٹھ سال کی معصوم کے ساتھ پیش ائے درندگی کے واقعہ کے متعلق شواہد اکٹھا کرنے سے لوگوں نے انہیں روکاتھا۔ابتداء میں تو گاؤں سے انہیں کسی قسم کا تعاون نہیں ملا ‘ لوگ ان سے بات کرنے سے بھی صاف طور پر انکار کررہے تھے۔
حال ہی میں ملزمین کی دفاع کررہے وکیل انکور شرما نے بیہودہ تبصرہ کرتے ہوئے تحقیقاتی افیسر کی کیس کو سلجھانے میں انٹلیجنس قابلیت کوہذف تنقید کیاتھا۔ شرما نے میڈیا سے کہاکہ یہی بات ان کے لئے’’دلی تکلیف ‘‘ کا سبب بنی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں بہت سارے مشکلات کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب ہم شواہد اکٹھا کررہے تھے۔انہوں نے کہاکہ پہلے چارچ شیٹ جمع کرانے میں ہمیں72روز لگے جبکہ ہر روز ہمیں حراست جیسے ماحو ل کا سامنا کرنا پڑرہاتھا۔
انہوں نے میڈیا سے کہاکہ مجھے اس وقت گہری تکلیف ہوئی جب میں نے دیکھا کہ مبینہ عصمت دری کے خاطیو ں کی حمایت میں سینکڑوں لوگ ہاتھوں میں ترنگا لے کر سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں
۔ڈوگری سے تعلق رکھنے والی خاتون ہونے کے باوجود مجھے جموں کی عوام کادشمن اور ان کے مفادات کے خلاف کام کرنے والی خاتون کے طور پر پیش کیاگیا۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ بطور ایک پولیس افیسر میرا کوئی مذہب نہیں ہے اور میں خاطیوں کو عدالت کے ذریعہ کس طرح سزا دلاؤں وہی دیکھوں گی۔