منسوخ شدہ کرنسی تو بنکوں میں جمع ہوگئی ، پھر بلیک منی کہاں گئی ؟
حیدرآباد 2 دسمبر ( سیاست نیوز ) : کالا دھن کو کنٹرول کرنے کیلئے کیا گیا نوٹ بندی کا فیصلہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا ثابت ہورہا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے اچانک فیصلے سے جہاں ملک میں معاشی بحران پیدا ہوا ہے وہیں 95 افراد کی موت واقع ہوئی ہے ۔ منسوخ شدہ کرنسی کے بدلے نئی کرنسی کی اشاعت پر 20 ہزار کروڑ روپئے کے مصارف عائد ہورہے ہیں فوجی ہیلی کاپٹرس اور دیگر ٹرانسپورٹ کے ذریعہ ریاستوں کو روانہ کی جانے والی نوٹوں کے اخراجات علحدہ ہیں ۔ کالا دھن کے شک و شبہات پر 15 لاکھ کروڑ روپئے مالیت کی کرنسی منسوخ کردی گئی ہے اور اتنی ہی مالیت میں منسوخ شدہ کرنسی بنکوں میں تیزی سے ڈپازٹ ہورہی ہے صرف 24 دن میں 10 لاکھ کروڑ روپئے کے منسوخ شدہ نوٹ بنکوں میں جمع ہوگئے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کالا دھن ہے کہاں یا گیا کدھر ؟ وزیر اعظم نریندر مودی کی تمام تدابیر الٹی ہوتی نظر آرہی ہیں ۔ ملک میں کالا دھن کا چلن عروج پر رہنے اور دہشت گردوں کی جانب سے اس کو ہندوستان کے خلاف استعمال کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک ہندوستانی کرنسی کے خلاف سرجیکل اسٹرئیک کرکے 500 اور 1000 روپئے کے نوٹ منسوخ کرنے کا اعلان کردیا ۔ کچھ راحت اور سہولت کے ساتھ منسوخ شدہ نوٹوں کو استعمال کرکے 30 دسمبر تک بنکوں میں جمع کردینے کا مشورہ دیا جس کے بعد ملک میں غیر معلنہ معاشی ایمرجنسی نافذ ہوگئی ۔ جس سے سارے ملک کے عوام میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ اپنی محنت کی کمائی بنکوں سے نکالنے آج بھی عوام بنکوں اور اور اے ٹی ایم سنٹرس کے سامنے قطاروں میں کھڑے کپکپاتی سردیوں کے باوجود اپنے روزمرہ کی تکمیل کو یقینی بنانے راتوں میں بنکوں کے سامنے شب بسری کرنے مجبور ہوگئے ۔ بنکوں کی قطاروں میں ٹھہر کر اور نقد رقم نہ ملنے سے ملک میں 95 افراد کی قیمتی زندگیاں ضائع ہوگئی ہیں ۔ جن میں بنک ایمپلائز بھی شامل ہیں ۔ ہندوستانی تہذیب میں خواتین کا زیور اس کی عزت ہوتی ہے ۔ تاہم ایک خاتون نے بنک سے اپنی جمع پونجی نہ ملنے پر برہنہ ہو کر احتجاج کرتے ہوئے سارے ملک کو شرمسار کردیا ہے ۔ ہندوستان کی جملہ کرنسی میں 86 فیصد 500 اور 1000 روپئے کے نوٹ تھے جنہیں منسوخ کرتے ہی صرف 14 فیصد 100 اور اس سے کم قدر والی کرنسی مارکٹ میں تھی منسوخ کردہ 500 روپئے کی مالیت 8.58 لاکھ کروڑ روپئے اور 1000 روپئے کی مالیت 6.86 لاکھ کروڑ جملہ 15.44 لاکھ کروڑ روپئے کی کرنسی کو منسوخ کردیا گیا تھا ۔ وزیراعظم نریندر مودی امید کر رہے تھے کہ ہندوستان کی جملہ کرنسی میں 4 تا 5 لاکھ کروڑ روپئے کالا دھن میں ہے اور حکومت کی جانب سے دی گئی 50 دن کی مہلت میں منسوخ شدہ 10 تا 11 لاکھ کروڑ روپئے بنکوں میں جمع ہونے کی توقع کررہے تھے ۔ تاہم جس تیزی سے بنکوں میں منسوخ شدہ نوٹ ڈپازٹ ہو رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی کی منصوبہ بندی خود ان کے گلا کا پھندہ ثابت ہورہی ہے ۔ 10 تا 27 نومبر تک صرف 18 دن میں منسوخ شدہ 8.45 لاکھ کروڑ روپئے کے ملک کے بنکوں میں جمع ہوئے ہیں ۔ یہ بات کا خود حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعہ انکشاف کیا ہے ۔ حالیہ 4 تا 5 بجے دن میں مزید 1.55 لاکھ کروڑ روپئے بنکوں میں جمع ہوگئے ہونگے ۔ اس طرح بنک کھاتوں میں 10 لاکھ کروڑ روپئے پہونچ چکے ہیں ۔ ہر بنک اپنی جانب سے وصول کئے جانے والے ڈپازٹ کو کیاش ریزرو ریشو ( سی آر آر ) کے تحت آر بی آئی میں جمع کرتے ہیں ۔ یہ رقم 8 نومبر تک 4.06 لاکھ کروڑ روپئے ریزرو بنک کے پاس جمع تھی ہر بنک عام طور پر بڑی نوٹ ہی آر بی آئی کے پاس جمع کرتے ہیں اور اسی طرح 8 نومبر تک ملک کے تمام بنکوں میں بڑی نوٹوں کی شکل میں 70 ہزار روپئے جمع تھے ۔ ابھی تک بنکوں میں 10 لاکھ کروڑ روپئے منسوخ شدہ کرنسی جمع ہوچکی ہے۔ سی آر آر ڈپازٹ کے تحت آر بی آئی میں بنکوں کے 4 لاکھ کروڑ روپئے پہلے سے جمع ہے ۔ بنکوں میں موجود رقم کو بھی جمع کرلیا جائے تو 14.80 لاکھ کروڑ روپئے بنکوں اور آر بی آئی کے پاس جمع ہوچکے ہیں ۔ بنکوں کے سامنے رقم جمع کرنے والی عوام کی بھیڑ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ 25 دن میں مزید ایک لاکھ کروڑ روپئے بنکوں میں جمع ہوجائیں گے ۔ پھر کالا دھن کہاں ہے یا کدھر چلا گیا ؟ نوٹ بندی سے 24 دن تک عوام پریشان رہے ۔ اب وزیراعظم کی الجھن اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ماہرین معاشیات وزیراعظم کے فیصلے کو غلط فیصلہ قرار دے رہے ہیں اور اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں عوامی مسائل پر ہنگامہ آرائی کی جارہی ہے ۔ نوٹ بندی سے کالا دھن تو باہر نہیں آیا تاہم نئی کرنسی کی اشاعت کیلئے عوام سے ٹیکس کی شکل میں وصول ہونے والے 20 ہزار کروڑ روپئے ضائع کردئیے گئے ۔ اس کے علاوہ نوٹوں کی منتقلی کیلئے فوجی ہیلی کاپٹرس و دوسرے ٹرانسپورٹس پر مزید اخراجات کا بوجھ حکومت پر عائد ہوا ہے ۔ عوام مسائل سے دوچار ہوئے ہیں ۔ کئی شادیاں ملتوی ہوگئی ہیں ۔ بیمار لوگوں کا وقت پر علاج نہیں ہوپایا ہے ۔ ملک میں 60 تا 70 فیصد تجارت اور کاروبار متاثر ہوا ہے اور95 افراد فوت ہوئے ۔ یہ سب دیکھ کر مرکز نے سونے کو نشانہ بنانے پارلیمنٹ میں ترمیمی ٹیکس بل پیش کردیا ہے اور حکومت یہ توقع کررہی ہے کہ کالا دھن سے سونا خریدتے ہوئے اس کو وائیٹ کردیا گیا ہے ۔ اس میں بھی کتنی سچائی ہے ۔ آنے والا وقت بتادے گا ۔