چندن گپتا پر گولی چلانے سلیم کا اعتراف، آئی جی علیگڑھ کا دعویٰ
نئی دہلی ؍ لکھنؤ ۔ 31 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) حکومت اترپردیش نے کاس گنج میں فرقہ وارانہ تشدد اور اس پر قابو پانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کی تفصیلات پر مبنی ایک رپورٹ آج مرکز کو روانہ کردی۔ فرقہ وارانہ تصادم میں ایک شخص ہلاک اور دیگر دو زخمی ہوگئے تھے۔ ریاستی حکومت کی اس رپورٹ میں واحد مہلوک چندن گپتا کی موت کا سبب بننے والے حالات اور اترپردیش پولیس کی طرف سے کی گئی گرفتاریوں کی تفصیلات شامل ہیں۔ ریاستی حکومت نے مرکزی وزارت داخلہ کو مطلع کیا کہ پولیس اس کیس کی تحقیقات کررہی ہے اور اس بات کا پتہ چلانے کی کوشش کی جارہی ہیکہ آیا یہ منصوبہ بند تشدد تھا۔ اس دوران اترپردیش کے کاس گنج میں چندن گپتا قتل کیس کے اصل ملزم کو آج گرفتار کرلیا گیا۔ فرقہ وارانہ تشدد سے متاثرہ اس ضلع کے چند حصوں میں جاری کشیدگی کے درمیان کانگریس کے وفد کو داخلہ سے روک دیا گیا۔ علیگڑھ رینج کے انسپکٹر جنرل سنجیو گپتا نے کہا کہ ’’سلیم جو اصل ملزم ہے، پکڑ لیا گیا ہے‘‘۔ کاس گنج کے سپرنٹنڈنٹ پولیس پیوش سریواستوا نے کہا کہ سلیم نے گپتا پر گولی چلانے کا اعتراف کرلیا ہے۔ ملزمین کی جائیدادیں ضبط کرنے سے متعلق نوٹسیں ان کے گھروں پر چسپاں کی جاچکی ہیں۔ سرکاری ذرائع نے کہا کہ ضلع کاس گنج کی سرحد سے متصلہ ایٹاہ کے میر ہاچی علاقہ میں حکام نے کانگریس کے ایک وفد کو داخلہ سے روک دیا۔ اس وفد کو امن و قانون کے مسائل پر مبنی وجوہات بتاتے ہوئے گڑبڑ زدہ علاقوں میں داخلہ کی اجازت دینے سے انکار کردیا گیا۔ کاس گنج کے ضلع مجسٹریٹ آر پی سنگھ نے کانگریس کے وفد کو اس اندیشہ کے تحت اجازت دینے سے انکار کردیا کہ اس کے دورہ سے مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ کاس گنج میں گذشتہ ہفتہ یوم جمہوریہ کے موقع پر نکالی گئی موٹر سیکل ریلی پر سنگباری کے نتیجہ میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ تصادم میں ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد کم سے کم ایک کار، دو گھروں اور تین دوکانوں کو نذرآتش کردیا گیا تھا۔ اس تشدد کے ضمن میں تاحال 150 سے زائد افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ اترپردیش کے چند مغربی علاقوں میں ہنوز کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پولیس نے کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد سے متاثر ٹاؤن میں معمول کے حالات بحال ہورہے ہیں۔ سیکوریٹی اہلکاروں نے حساس علاقوں میں اپنی گشت بڑھا دی ہے۔ مرکز نے فرقہ وارانہ تشدد اور اس پر قابو پانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر حکومت اترپردیش سے رپورٹ طلب کی ہے اور ریاستی حکام اس ضمن میں رپورٹ تیار کررہے ہیں۔