کاس گنج میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد صورتحال پر امن مگر کشیدہ‘ تیسر ے دن بھی ایک دوکان میںآگ لگائی گئی‘ وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ کی میٹنگ‘ پولیس مسلم علاقوں سے گرفتاریاں کررہی ہے ‘ ملزمین کے حلاف این ایس اے کے تحت کاروائی کا امکان‘ اقلیتی علاقوں میں بجلی‘ پانی اور انٹرنٹ سروس معطل‘ ڈرون سے نگرانی
لکھنو/کاس گنج۔کاس گنج میں فرقہ وارانہ تشدد میں اقلیتی فرقہ کے خلاف یکطرفہ کاروائی سے خوف وہراس کی خبروں کے درمیان تیسرے دن بھی ایک دوکان کا آگ لگائی گئی۔
دوسری طرف کا س گنج میں بڑے پیمانے پر تشدد آگ زنی لوٹ مار او رعبادتگاہوں پر حملے کے بعد انتظامیہ نے دعوی کیا ہے کہ فی الحال شہر میں حالات پرامن ہیں۔پولیس نے ابھی تک ساٹھ لوگوں گرفتار کیا ہے اور ساتھ میں ہی یہ دعوی کیاکہ فائرنگ میں استعمال ہونے والی پستول برآمد کرلی گئی ہے ۔فسادیوں پر ڈرون کیمروں سے نظر رکھی جارہی ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ کاس گنج میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلم علاقوں میں کرفیونافذ ہے اور اس طرح کے اطلاعات ہیں کہ اقلیتی فرقے کے خلاف یکطرفہ کاروائی کی جارہی ہے جس سے زبردست خوف وہراس پایاجاتا ہے ۔ وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے کاس گنج کے مسئلہ پر ڈی جی پی اور چیف سکریٹری کی میٹنگ طلب کی ہے اور اس امکان کا اظہار کیاجارہا ہے کہ اس تشدد میں ملوث افراد کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کاروائی ہوسکتی ہے۔
پولیس زیادہ تر اقلیتی علاقوں میں کاروائی کررہی ہے اور بڑے پیمانے پر اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میںآرہی ہیں ۔قابل ذکر ہے کہ گذشتہ رات جب انقلاب بیورو نے مقامی افرا دسے بات چیت کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے شدید خوف کا اظہار کیا۔ مسلم علاقوں میں بجلی ‘ پانی کی سپلائی اور انٹرنٹ بند کرنے کی بھی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔
کا س گنج میں مسلمانوں اس خوف میں مبتلا ہیں کہ فرقہ پرست عناصر اور شرپسند ان پر پھرسے حملے کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ویر عبدالحمید تراہے پر اے بی وی پی اور بجرنگ دل کے غنڈوں نے پرامن طریقے سے یوم جمہوریہ منانے کی تیاری کررہے مسلمانوں سے گالی گلوج کرنے کے بعد ان پرحملہ کیاتھا ۔ اسی کی وجہہ سے فرقہ وارنہ تشدد بھڑک اٹھا۔
تاہم بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز او رپولیس تعینات ہونے کے باوجود شر پسند عناصرکھلے عاام دوکانوں او رگاڑیوں کو نذر آتش کرتے رہے ۔