چین میں مسلم اکثریتی والے علاقے میں بچوں پر قرآنی کلاسس اور اسلامی تعلیم حاصل کرنے پر لگائی روک۔

چین۔ مسلم اکثریتی والے صوبہ میں سرمائی چھٹیوں کے دوران چین نے مسلم بچوں پر قرآنی کلاسس اور اسلامی تعلیم پر مشتمل تدریسی پروگراموں میں شرکت پر روک لگادی ہے۔ضلع کے تعلیمی محکمے نے ایک ان لائن نوٹس جاری کرتے ہوئے چھٹیو ں کے دوران لنزایہ کاونٹی کے گھانسو صوبہ میں جہاں پر 1.6ملین مسلمان کو مذہبی اداروں میں جانے پرامتناع عائد کردیا ہے۔

نوٹس میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ طلبہ اسکول کلاسس میںیا پھر مذہبی اداروں میں عربی مواد کا مطالعہ بھی نہیں کریں گے او رمزیدکہاکہ طلبہ اور ٹیچرس کو چاہئے کہ وہ سیاسی نظریات او رپروپگنڈہ کو فروغ دینے کے لئے کام کریں مگر اس بات کی نیوز ایجنسی رائیٹرس نے تصدیق کرنے سے انکار کردیا ہے۔

سمجھا جارہا ہے کہ زنجینگ صوبہ کے کچھ حصوں میں پچھلے چند سالوں کے دوران چین میں بڑھتے مسلمان اور اس کے بعد پیدا شدہ صورتحال کی وجہہ سے یہ اقدام اٹھایاجارہا ہے۔

چینی بولنے والے ہووئی جو یغور کی ہان چینی اکثریتی ہے میں بھی کچھ دانشواروں کی جانب سے نگرانی کی جارہی ہے جنھیں سماج پر بڑھتے اسلامی اثر سے خوف ہے۔چین ناستکوں اور کمیونسٹوں کا ملک مانا جاتا ہے مگر یہاں پر مذہبی آزادی کاقانون بھی کارگرد ہے مگر تعلیمی میں درکار اصلاحات کے نام پر کم عمر میں تعلیم اور تحفظ کے فروغ کے لئے ریاستی تعلیمی نظام کو فرقہ پرستی سے محفوظ رکھنا کا مقصد ہے ۔

نیوز ایجنسی اے این ائی کی رپورٹ کے مطابق چین میں بڑھتے اسلامی اثر پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک مارکسٹ اسکالر زی وویائی کے ان لائن تصوئیر ان خدشات کا اظہارکررہی ہے۔

دوسا ل قبل گھانسو حکومت نے نرسری جماعت کی ایک چھوٹی بچی کی جانب سے قرآن کی تلاوت پر مشتمل ویڈیو ان لائن وائیرل ہونے کے بعد ابتدائی تعلیمی سطح پر مذہبی تعلیم پر روک لگادی تھی۔مذہبی امور پر پچھلے سال اکٹوبر میں چین نے نئی قوانین کا اعلان کیا ہے۔

جس کا نفاذ اس سال فبروری سے ممکن ہے۔ پچھلے سرما میں ایک سنڈی اسکول پر امتناع عائد کردیاگیا تھا جو وینزہو کی ویسٹرن سٹی میں ہے اور اس کے کچھ وقت کے لئے ’’ چین کا یروشلم‘‘کے طور پر پیش کیاتھا جو بڑی عیسائی آبادی پر مشتمل ہے‘ مگر عیسائی والدین اپنے بچوں کو بناء کسی عذر کے مذہبی تعلیم فراہم کرنے سے باز نہیں ہوئے۔