اقلیتی بہبود کے بجٹ سے 30 کروڑ کا خرچ ،افطار اور کپڑوں سے کب تک بہلایا جائے گا ؟
حیدرآباد ۔ 6 ۔جون (سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی جانب سے 8 جون جمعہ کے دن 7000 اہم شخصیتوں کیلئے دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لال بہادر اسٹیڈیم میں دعوت افطار پر دو کروڑ سے زائد کا خرچ آئے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف منسٹر نے اقلیتی بہبود کے لئے مختص کردہ بجٹ سے افطار کے اخراجات کی تکمیل کا فیصلہ کیا ہے۔ جاریہ سال بجٹ میں افطار اور کرسمس کیلئے 66 کروڑ روپئے مختص کئے گئے اور ریاست بھر میں حکومت کی جانب سے دعوت افطار اور غریبوں میں گفٹ پیاک کی تقسیم پر جملہ 30 کروڑ روپئے کے اخراجات کا امکان ہے۔ چیف منسٹر کی دعوت افطار گزشتہ دو برسوں سے مسلمانوں میں موضوع بحث بن چکی ہے۔ عام مسلمانوں کا تاثر ہے کہ صرف دعوت افطار کے اہتمام سے مسلمانوں کی پسماندگی دور نہیں ہوگی۔ ہر سال رمضان المبارک کے موقع پر غریبوں میں کپڑوں کے گفٹ پیاک کی تقسیم کے ذریعہ حکومت مسلمانوں سے ہمدردی کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن 465 روپئے میں تین جوڑے سربراہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی غربت کا مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ چیف منسٹر نے مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کا وعدہ یکسر فراموش کردیا ۔ تلنگانہ تحریک کے دوران اور 2014 ء کی انتخابی مہم میں اعلان کیا گیا تھا کہ اقتدار کے اندرون چار ماہ 12 فیصد مسلم تحفظات پر عمل کیا جائے گا ۔ چار ماہ تو دور کی بات ہے، حکومت کے چار سال مکمل ہوگئے لیکن آج تک تحفظات کے سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ اسمبلی میں تحفظات بل کی منظوری کے وقت کے سی آر نے اعلان کیا تھا کہ مرکز کی جانب سے تحفظات کی عدم منظوری کی صورت میں سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر دستور کے 9 ویں شیڈول میں تحفظات کو شامل کیا جائے گا ۔ مرکز نے تحفظات بل کو تین ماہ قبل ریاست کو واپس بھیج دیا لیکن آج تک سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ۔ اب جبکہ عام انتخابات قریب ہیں مسلمانوں کا حکومت کے وعدہ پر سے اعتماد اٹھنے لگا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل پھر ایک بار حکومت تحفظات کے سلسلہ میں کوئی نیا وعدہ کرے گی ۔ تلنگانہ کی غیر سیاسی اور فلاحی تنظیموں نے چیف منسٹر کو یاد دلایا ہے کہ انہوں نے تحفظات کے لئے نئی دہلی میں دھرنا منظم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ لیکن یہ اعلان محض مسلمانوں کو خوش کر نے کی ناکام کوشش ثابت ہوا ہے۔ مسلمانوں کی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے صرف اقامتی مدارس کا قیام کافی نہیں ہے بلکہ انہیں تعلیم و روزگار میں تحفظات ضروری ہے۔ دیگر طبقات کے مقابلہ مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی ہر کسی پر عیاں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دعوت افطار اور گفٹ پیاک کی تقسیم سے کب تک مسلمانوں کو بہلانے کی کوشش کی جائے گی۔ مسلمان اس قدر بھی محتاج نہیں کہ وہ عید کے موقع پر اپنے اور اپنے گھر والوں کیلئے نئے ملبوسات کا انتظام نہ کرسکیں۔ مسلمانوں میں موجود مخیر افراد اور زکوٰۃ اور عطیات کے نظام سے کوئی بھی غریب خاندان عید کی خوشیوں سے محروم نہیں ہوسکتا ۔ایک خاندان کو 465 روپئے میں تین جوڑے فراہم کرتے ہوئے حکومت احسان کا رویہ اختیار کر رہی ہے۔ جو کپڑے تقسیم کئے جارہے ہیں ، ان کے معیار کی کوئی گیارنٹی نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 465 روپئے میں ایک معیاری ساڑی ، شرٹ شلوار اور کرتا پائجامہ کا کپڑا ہرگز حاصل نہیں ہوگا لیکن حکومت کپڑوں کی تقسیم کے ذریعہ غریب مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے مانگنے والوں کی طرح سلوک کر رہی ہے۔ اقلیتی بہبود کے بجٹ کو محض نمود و نمائش اور دکھاوے پر خرچ کرنے کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ وہ 12 فیصد تحفظات پر عمل آوری کے سلسلہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ چیف منسٹر کو دعوت افطار کے موقع تحفظات کے سلسلہ میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کرنا ہوگا ورنہ بعض عوامی تنظیموں کی جانب سے تیار کردہ یہ نعرہ درست ثابت ہوگا کہ ’’افطار کھاؤ تحفظات بھول جاؤ‘‘ ۔ واضح رہے کہ 8 جون کو چیف منسٹر کی حیدرآباد میں دعوت افطار کے علاوہ ریاست کی 800 مساجد میں افطار کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ہر مسجد میں 500 افراد کے طعام کا انتظام رہے گا جس کیلئے حکومت کی جانب سے ہر مسجد کو ایک لاکھ روپئے جاری کئے گئے ہیں۔ ہر مسجد کے علاقہ میں 500 غریبوں میں رمضان گفٹ پیاک کی تقسیم عمل میں لائی جارہی ہے۔ ریاست میں جملہ 4 لاکھ 50 ہزار گفٹ پیاکٹس تقسیم کئے جارہے ہیں جس پر 20 کروڑ 92 لاکھ 50 ہزار کا خرچ آئے گا۔ 800 مساجد کو فی کس ایک لاکھ روپئے کے حساب سے جملہ 8 کرو ڑ روپئے جاری کئے گئے۔ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں 432 اور باقی اضلاع میں 368 مساجد کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ مختلف سماجی تنظیموں نے چیف منسٹر کی دعوت افطار کے اقلیتی بہبود کے بجٹ سے انعقاد کی مخالفت کی ہے ۔ اس سلسلہ میں ہائیکورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست دائر کی گئی ۔ بعض تنظیموں نے دعوت افطار کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ چیف منسٹر کی دعوت میں شرکت کرنے والے علماء ، مشائخ اور قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم تحفظات کے سلسلہ میں چیف منسٹر سے اپنے جذبات کی ترجمانی کریں۔