مذکورہ پولیس جوان معصوم کو اپنے کاندھے پر لے کرباہر جاتی ہے او رایک درخت کے نیچے کھڑے ہوجاتے ہیں۔مذکورہ معصوم اس کے گلے کے اردگر اپناچھوٹا ہاتھ ڈال کر سوجاتی ہے۔
باغپت کے ایک اسپتال میں ایک سال کی گڑیا جس کا سر پٹیوں سے بندھا ہوا ہے‘ کچھڑے پڑی ہے اور تازہ ہوا کے لئے اس کو باہر لایاگیا۔نرس نہایت احتیاط کے ساتھ اس کی نگرانی کررہی ہے‘ بڑے آرام سے اس کی صاف صفائی کررہے ہیں۔
بچی کے رونے کی آواز کے ساتھ ہی وہ اپنے چہرے گھوما کر وارڈ میں بیٹھی خاتون کونسٹبل کی طرف دیکھتی ہے۔مذکورہ پولیس جوان معصوم کو اپنے کاندھے پر لے کرباہر جاتی ہے او رایک درخت کے نیچے کھڑے ہوجاتے ہیں۔مذکورہ معصوم اس کے گلے کے اردگر اپناچھوٹا ہاتھ ڈال کر سوجاتی ہے۔
ایسا پچھلے چاردنوں سے چل رہا ہے جب سے معصوم ایک عورت کی نعش کے قریب سے ملا‘ جس کے متعلق مانا جارہا ہے کہ وہ اس کی ماں ہیں جو باغپت کے کھیتوں میں ملے‘ پولیس کا یہ بھی ماننا ہے کہ دونوں پر قاردھار ہتھیار سے حملے کیاگیاہے۔
وہیں عورت کی نعش مسخ شدہ ہوگئی تھی او رمعصوم کرشماتی طور پر دو دن برسات میں بھوک پیاس سے لڑتی رہی اور بلکتے ہوئے کھیتوں سے باہر ائی جہاں پر قریب میں واقعہ مندر کے لوگوں نے اس کو دیکھا۔
مذکورہ بچہ او رما ں کی شناخت ابھی نہیں ہوئی ہے‘ اسپتا ل کے عملے نے اس کو گڑیااور ریکھا نگر کا نام دیا ہے۔ گڑیا کو بہتر حالات میں لانے کے لئے بیروت پولیس اسٹیشن کی ایک کانسٹبل کو انچارج بنایاگیا ہے۔
گھر جاکر اپنے پانچ سالہ کے بیٹے کی دیکھ بھال کرنے والی ریکھا نے کہاکہ ”میں صبح دس بجے آتی ہوں او ررام نو بجے لوٹ کرجاتی ہوں۔ گڑیا نہایت بہادر اور محبت والی بچی ہے۔ کافی مشقت کررہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ وہ ٹھیک ہوجائے گی۔
پچھلے جمعہ کے روز جب اس کو یہاں پر لایاگیاتھا اس وقت سے حالات کافی بہتر ہے“۔ باغپت آستھا ملٹی اسپیشالٹی اسپتا ل کے ڈاکٹرس کے مطابق گڑیا کی پیشانی کے دائیں حصہ پر تیز دھار ہتھیار کے ضربات ہیں۔
آستھا اسپتال کے ڈاکٹر اجئے گرگ نے کہاکہ ”جب ہم نے سی ڈی اسکین کیاتو پتہ چلا کہ سر کے اندرونی حصہ میں ہڈی ٹوٹی ہوئی بھی ہے۔
ایسا زخم ہے جس کی مرہم پٹی میں بھی کافی مشکلات ہورہی ہیں۔ سرکے زخم میں انفکشن کی وجہہ سے ہم کی بھی مرہم پٹی نہیں کر پارہے ہیں۔
مگر ہمیں امیدہے کہ وہ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گی“۔
پولیس بچی اور متوفی عورت کی نعش کی تصوئیرو ں پر مشتمل پیغام واٹس ایپ کے ذریعہ پھیلارہی ہے تاکہ دونوں کی شناخت کی جاسکے او رقتل کی وجہہ کا پتہ چل سکے