چائے والے بابو اور محبت کون کرتا ہے سیاست کون کرتا ہے

عمران پرتاپ گڑھی کی نرمل میں گونج

نرمل 2 اکٹوبر (جلیل ازہر کی رپورٹ) نرمل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کئی برسوں سے ادب کی محفلوں اور مشاعروں کے انعقاد میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس سرزمین پر ملک کے کئی نامور شعراء کو شائقین ادب نے سنا ہے اور دور جدید کے عالمی سطح تک اپنی ایک منفرد شناخت بناتے ہوئے نوجوانوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے منفرد لب و لہجہ کے شاعر جس نے اپنی شاعری کے ذریعہ ادب کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے تو دوسری طرف فرقہ پرستوں کی نیند اُڑا دی ہے، وہ ہے عمران پرتاب گڑھی جنھوں نے یکم اکٹوبر کی رات نرمل کے جونیر کالج گراؤنڈ پر منعقدہ محفل مشاعرہ میں ہزاروں کی تعداد میں موجود سامعین کے ضمیر کو جھنجوڑ دیا۔ اپنی شاعری کے ذریعہ ملک اور ریاست کے بدترین حالات کو لفظوں میں پرو کر اشعار کی شکل دیتے ہوئے ہر شعر پر زبردست داد تحسین حاصل کی۔ شائد شاعری کی دنیا میں یہ پہلا جذباتی شاعر اور وقت و حالات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے اکیلا عمران پرتاب گڑھی نے کوئی تین گھنٹے مسلسل اپنی شاعری کے ذریعہ نرمل کی عوام کا دل جیت لیا۔ اس مشاعرہ کا انعقاد مسٹر سید ارجمند علی تاجر رئیل اسٹیٹ کی جانب سے عمل میں آیا تھا جس میں بحیثیت مہمانان خصوصی جناب عامر علی خان نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست، جناب محمد علی شبیر، جناب علی مسقطی، محمد فخرالدین، سینئر کانگریس قائد اے مہیشور ریڈی سابق رکن اسمبلی، مدھو یاشکی سابق رکن پارلیمنٹ نظام آباد، محمد غوث سابق کارپوریٹر حیدرآباد محمد ساجد خان موجود تھے۔ مشاعرہ کے آغاز سے قبل محمد علی شبیر نے اپنے مختصر سے خطاب میں کہاکہ ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت یعنی ٹی آر ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں بالخصوص چندرشیکھر راؤ نے مسلمانوں کو تحفظات کا جھانسہ دے کر وعدوں سے انحراف کیا ہے اور وقت آچکا ہے کہ ٹی آر ایس کو سبق سکھایا جائے۔ محمد علی شبیر نے نیوز ایڈیٹر جناب عامر علی خاں صاحب کے ملت کے تعلق سے جذبہ حقیقی قرار دیتے ہوئے عامر علی خان صاحب کی زبردست ستائش کی کہ اس نوجوان صحافی نے ساری ریاست میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور درخشاں مستقبل کے لئے تحفظات کے لئے جو شعور بیدار کرنے میں نمایاں کردار نبھایا ہے اس کو ملت فراموش نہیں کرسکتی جبکہ کانگریس نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرتے ہوئے آج کوئی 20 لاکھ طلباء کو
فائدہ پہونچایا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ محفل مشاعرہ کی یہ محفل میں آپ کے درمیان اور زیادہ نہیں کہہ سکتا پھر کسی جلسہ میں اظہار خیال کروں گا خوشی اس بات کی ہے کہ نرمل ادب کا گہوارہ ہے یہاں برسوں سے مجھے مشاعروں میں شرکت کرنے کا موقع ملا ہے آج اس سرزمین پر عمران پرتاب گڑھی کو آپ سنئے
بعدازاں عمران نے مائیک سنبھالتے ہی تالیوں کی گونج اور آتشبازی کے سبب ماحول دیوالی جیسا لگ رہا ہے۔ عمران نے غزلیں سنانے سے پہلے بار بار ملک میں ہورہے نفرت انگیز ماحول پر خصوصی توجہ دینے کی سامعین سے گذارش کی۔ اپنی غزلوں کے ذریعہ شائقین ادب کو غیر معمولی جوش و خروش پیدا کرتے ہوئے وہیں نجیب کی نظم سناتے ہوئے سارے سامعین کی آنکھوں کو اشکبار کردیا۔ ان کی اس نظم پر ہر آنکھ پرنم دیکھائی دے رہی تھی جب وہ نظم پڑھ رہے تھے تو ان کی آنکھیں بھی بھیگی ہوئی تھیں۔
سنا تھا کے بے حد سنہری ہے دلّی
سمندر سی خاموش گہری ہے دلی
وہ آنکھوں میں اشکوں کا دریا سمیٹے
وہ امید کا ایک نظریہ سمیٹے
یہاں کہہ رہی ہے وہاں کہہ رہی ہے
تڑپ کر کہ ایک ماں کہہ رہی ہے
نہیں پوچھتا ہے کوئی حال میرا
کوئی لاکے دیتے مجھے لال میرا