ضرورت پڑنے پر معاہدہ پر دوبارہ بات چیت کا سازگار ماحول پیدا کیا جائے گا
واشنگٹن ۔ 2 ۔ جون : ( سیاست ڈاٹ کام) : امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بالاخر وہ صدمہ انگیز خبر سناہی دی جس کی توقع کی جارہی تھی ۔ امریکہ اب پیرس موسمی تبدیلی کے معاہدہ سے الگ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عالمی حدت کو کم کرنے کی عالمی کوششوں کو زبردست دھکا لگے گا ۔ وائیٹ ہاوس کے روز گارڈن سے اپنے خطاب کے دوران ٹرمپ نے صاف صاف کہہ دیا کہ امریکہ ’ ناقص ‘ 195 ملکی معاہدہ سے الگ ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی ایسے معاہدہ کا حصہ نہیں بن سکتے جو امریکہ کے لیے کسی سزاء سے کم نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ پیرس موسمی تبدیلی معاہدہ سے امریکہ پر غیر ضروری مالی بوجھ عائد کردئیے تھے جس کا امریکہ متحمل نہیں ہوسکتا ۔ انہوں نے اپنے پیشرو بارک اوباما پر بھی تنقیدیں کیں اور کہا کہ ایسا معاہدہ جہاں ’ امریکہ سب سے پہلے ‘ نہ ہو وہ ان کے ( ٹرمپ) لیے قابل قبول نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ ان کے معاشی طور پر حریف ممالک ہندوستان ، چین اور یوروپ کے لیے بے حد آسان ہے ۔ میرا انتخاب پٹس برگ کے شہریوں کی نمائندگی کے لیے کیا گیا تھا نہ کہ پیرس کے لیے ۔ ہم نہیں چاہتے کہ دیگر ممالک اور ان کے قائدین ہماری ہنسی اڑائیں ۔ ان وضاحتوں کے دوران ٹرمپ نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ سرکاری طور پر پیرس معاہدہ سے علحدگی کا اعلان کب اور کیسے کیا جائے گا جب کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ٹرمپ نے پیرس معاہدہ پر دوبارہ بات چیت کا اشارہ بھی دیا تھا ۔ یاد رہے کہ امریکہ گرین ہاؤس گیاسیس کے اخراج والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدہ سے ہندوستان اور چین کو زیادہ فائدہ ہورہا ہے ۔
اس دوران ڈیموکریٹک قائد نینسی پیلوسی نے کہا کہ پیرس معاہدہ سے دستبردار ہوجانے سے امریکہ موسمی تبدیلی کے بحران سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے ۔ اگر صدر ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور چین جیسے ممالک مزید موثر اقدامات کریں تو پھر انہیں بھی پیرس معاہدہ میں جوابدہی اور انفورسمنٹ پرویژن کو یقینی بنانا چاہئے تاہم صدر ٹرمپ تو اس کے برعکس کررہے ہیں ۔ معاہدہ سے دستبردار ہوجانا اور غصہ میں کمرہ سے باہر نکل جانا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ پیرس معاہدہ اس وقت ٹرمپ کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے ۔ انہوں نے صدارتی مہمات اور یہاں تک صدارتی دفتر میں اپنے پہلے 100 دنوں کی کارکردگی کے دوران موسمی تبدیلی کو جھوٹ اور فریب قرار دیا تھا ۔ امریکہ نے پیرس معاہدہ سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے دیگر دو ممالک کی صف میں اپنے آپ کو شامل کرلیا ہے اور وہ وہیں شام اور نکاراگوا جنہوں نے اس معاہدہ پر سرے سے دستخط ہی نہیں کیے تھے ۔ ٹرمپ کا استدلال ہے کہ فی الحال ان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل امریکی عوام اور امریکی تجارت ہے ۔ میں اپنے عوام کے مفاد کے لیے پیرس معاہدہ سے دستبردار ہورہا ہوں کیوں کہ وہ اس معاہدہ کو ایک ’ خون آشام ‘ معاہدہ تصور کرتے ہیں جو امریکہ کے مفاد میں ہرگز نہیں ۔ میں امریکی صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض نبھانے میں کوتاہی سے کام نہیں لوں گا ۔ ضرورت محسوس ہوئی تو پیرس معاہدہ پر دوبارہ بات چیت کا سازگار ماحول بھی پیدا کیا جائے گا ۔ اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ نے فرانس ، برطانیہ ، کینڈا اور جرمنی کے قائدین کو فرداً فرداً کال کرتے ہوئے ٹرمپ کے پیرس معاہدہ سے دستبردار ہونے کے فیصلہ سے آگاہ کردیا ہے ۔