نئی دہلی۔جموں او رکشمیر میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کو ماہ صیام کے موقع پر روکنے کے فیصلے سے یقینی طور پر ہندوستان کی خارجی پالیسی پر اثر پڑیگا۔ مذکورہ فیصلہ2000میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی جانب سے لئے گئے فیصلے کی یاددلاتا ہے۔سال2003میں واجپائی نے دوبارہ کشمیر کا استعمال پاکستان کے لئے مشہور ’’زیتون رانچ‘‘کے طور پر کی تھی۔ کیاانہیں خطوط پر دوبارہ ایسا ہی ہوگا؟۔
سب سے قبل مرکز کا فیصلہ جموں کشمیر کے دہشت گردوں کے لئے آدھی راحت ہے۔ یہ صاف ہے کہ اگر وہ سکیورٹی فورسس پر کوئی حملہ کرتے ہیں تو انہیں بخشا نہیں جائے گا۔
مگر یہ پیشکش کی خلاف ورزی کی گئی ‘ اگر چہ شدید گرما کے مہینے میں ‘ اس کا مطالب ہے کہ پاکستانی فوج ‘ جو اب بھی وادی میں دہشت گردوں کو تشدد کے لئے اکسانے میں بڑی اسپانسر ہے ‘ وہ اپنے فائٹرس کو ہدایت دی گی کہ کام میں سستی لائیں۔دوسرا ‘ یہ کہ پاکستان فوج کے لئے اشارہ ہوگا کہ اس کے کامیاب اپریشن کے باوجود ہندوستان کو اس امن کا ایک موقع دے رہا ہے او رپاکستان کے ردعمل کا انتظار ہے۔
پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل باجو نے سابق میں بھی ہندوستان کے ساتھ امن کا اقدام ضروری تھا۔ چاہے وہ کامیاب ہوگا یا نہیں مگر اس کی شروعات ہندوستان کی جانب سے ہوئی ہے۔ تیسرا جموں او رکشمیر میں اضطراب کی وجہہ کی بناء پر ہندوستان بین الاقوامی دباؤ میں نہیں ہے ‘ ہندوستان کے اسلامی دنیا کے نئے دوستوں کے سامنے یہ اقدام مثبت پہلو کے طور پر ہے۔
حا ل ہی میں بنگلہ دیش نے (او ائی سی )اسلامک کواپریشن تنظیموں میں اصلاحی تجویز کے طو رپر یہ با ت رکھی تھی کہ اجتماعیت کے لئے ہندوستان جیسے ممالک کو مدعو کیاجانا چاہئے۔اگر پاکستان اس کا کوئی معقول جواب دیتا ہے تو اپنے مشکل ترین پڑوسی سے ٹوٹے ہوئے رشتوں میں سدھا ر کا ایک موقع ہندوستان کو بھی ملے گا
۔سال2016میں اوری حملے کے بعد ہندپاک کے درمیان میں کوئی سرکاری طور پررابطہ نہیں ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کی این اے بی کے خلاف نواز شریف انڈیا کے فنڈنگ کے الزاما ت ان میں سے ایک ہے مگر نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان روابط کچھ سبز راہیں بھی دیکھائی دے رہی ہیں۔