نومبر2012میں مذکورہ ائی ٹی انجینئر اور ایم بی اے گریجویٹ کابل میں انٹرویو دینے کے بہانے گھر سے گیاتھا۔ ایک ہفتہ بعد فیس بک کے ذریعہ کھٹک کی قبائلی 25سالہ لڑکی جو دوست بنی تھی کو بچانے کے لئے تورکھام کے ذریعہ پاکستان میں داخل ہوا تھا۔
ممبئی۔پاکستان کی جیل میں گذارے ہوئے وقت کو یاد کرنے کے لئے حامد انصاری کے پاس دو ہاتھ سے بنے ویلیٹ پیپر باکس ہیں۔ ممبئی کے اپنے گھر میں رکھے شوکیس میںیہ رکھے ہوئے ہیں‘ قید کے دوران اس کے پاس موجود برکس لیڈ‘ روزری‘ کی چین اور ایم قلم مذکورہ باکسوں میں رکھا ہوا ۔
حامد جس کی عمر33سال کی ہے نے کہاکہ ’’ جیل میں قید کے دوران میں پکوان سیکھا‘‘۔
مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہونے کی وجہہ سے چھ سالوں تک جیل کی زندگی گذارنے والے کے بعد وطن واپس لوٹنے والا حامد کچھ دیر قبل ہی اپنے دوستوں سے ملاقات کے بعد گھر آیاتھا۔
اپنی59سالہ ماں جو کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی ا ن کے پاس پہنچ کر وہ کہتا ہے کہ’’ کچھ دن قبل میں اندھیری میں اپنے دوستوں کے پاس گیاتھا۔
میری ماں اس دوران مجھے مسلسل فون کرتی رہی کہ میں کہاں اور کس حال میں ہوں‘‘۔ ماں نے کہاکہ’’ جب بھی یہ گھر کے باہر جاتا ہے تو میں بے چین ہوجاتی ہوں‘‘۔نومبر2012میں مذکورہ ائی ٹی انجینئر اور ایم بی اے گریجویٹ کابل میں انٹرویو دینے کے بہانے گھر سے گیاتھا۔
ایک ہفتہ بعد فیس بک کے ذریعہ کھٹک کی قبائلی 25سالہ لڑکی جو دوست بنی تھی کو بچانے کے لئے تورکھام کے ذریعہ پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ہماری عام طور پر ہونے والے بات چیت میں اس نے بتایا کہ اس کے والدین زبردستی اس کی شادی کررہے ہیں جو ہمارے قبیلے کے کسی مرد کی جانب سے انجام دیا گیا جرم کی سزا کے طور پر ہے۔
حامد کو14نومبر2015کے روز گرفتار کرکے ملٹری انٹلیجنس اور ائی ایس ائی کے حوالے کردیاگیا۔ ساڑھے تین سال کے لئے پہلے اسے پیشاور کی ملٹری جیل میں جاسوسی کے الزامات کے تحت رکھا گیا۔یادکرتے ہوئے حامد نے کہاکہ ’’ تفتیش کے دوران وہ پورا ہفتہ مجھے کھڑا کردیتے اور سونے نہیں دیتے ۔
بعض اوقات مجھے کئے دنوں تک بیٹھے رہنے کے لئے کہتے۔ میرا ہاضمہ متاثر ہوگیاتھا‘ مجھے قئے اوردست کی شکایت ہوگئی تھی۔ ان کی زیر زمین جیلوں میں ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے ’’ دن او ررات کے درمیان کا فرق مجھے کبھی محسوس نہیں ہوتا‘‘۔
پیشاور کی دوسری ملٹر ی جیل میں اسے 2015کو منتقل کیاگیا۔والدہ کے حوالے سے ایک پاکستانی صحافی اس مرتبہ تعقب میں لگاتھا۔ سال2014میں لڑکی کے گھر گئی تھی اورپھر انہو ں نے سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سل میں ایک درخواست دائر کی۔
اگست19سال2015میں وہ لاہور سے اغوا کرلی گئی اور دوسالوں تک لاپتہ رہی۔ اس کے لاپتہ ہونے کے کچھ مہینوں بعد ڈسمبر2015 میں حامد کو ملٹری کورٹ میں پیش کیاگیا۔ حامد نے کہاکہ ’’ مجھے بچاؤ کے لئے ایک وکیل دیاگیا مگر وہ واپس چلاگیا۔
مجھے ہاتھ باندھ کر او رانکھوں پر پٹی لگاکر خود کے بچاؤ کے لئے چھوڑ دیاگیا‘‘۔درایں اثناء فوزیہ 2015میں وکیل قاضی محمد انور اور ہیومن رائٹس جہدکار وکیل راقشندہ نازسے رابطے میں ائی۔سال2016میں حامد کو پہلی مرتبہ پیشاوار جیل میں ملنے کے لئے اگر کوئی آیاتو وہ ناز تھیں ۔
عام طور پر حامد زندگی کا جیل میں ایک معمول بن گیاتھا ۔ سل صبح گیارہ سے دوبجے درمیان کھولتے ۔ وہ پرتن وغیر ہ کی صفائی‘ پکوان او رنہانے کاکام کرلے۔ پیسے کمانے کے لئے اس نے کہاکہ ’’ ہم تڑکے کا تیل جمع کرکے بیچتے تھے‘‘۔
ہر ماہ ہمیں کسی بھی حال میں سات سے اٹھ تیل کی چھوٹی بوتلیں فروخت کرتے۔ ان پیسوں سے وہ جیل کے اندر دوکانوں سے کچھ خریدی کرتا او ردوسرے قیدیوں میں اس کو فروخت کرتاتھا۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ایڈوکیٹ ناز نے بتایا کہ جب عہدیدار اس لڑکے کے گھر گئے جس کی محبت میں حامد گرفتار ہوا تھا تو لڑکی نے پورا ساتھ دیتے ہوئے حامد کی بات کی توثیق کی اوراس کو بے قصور ثابت کرنے میں ان لوگوں کی مدد کی تھی۔
تاہم حامد نے اس سے ابھی تک کوئی ملاقات نہیں کی تھی۔ ا ب وہ اپنی نئی زندگی جینے کی را ہ تلاش کررہا ہے ۔ کچھ دنوں کے آرام کے بعد وہ نوکری کی تلاش کررہا ہے اور وہ چاہتے کہ کہیں پر تعلیم دے