اسلام آباد۔مقدس اشرف کی عمر اس وقت محض16سال کی تھی جب اس کے والدین نے دولہن کی تلاش میں آنے والے ایک چینی شخص کے ساتھ شادی کردی تھی۔ پانچ ماہ مسٹر محترمہ اشرف اپنے آبائی ملک واپس لوٹ گئی‘ حملہ تھیں اور بدسلوکی کے سبب شوہر سے علیحدگی چاہا رہی ہیں۔
جہدکاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال سے چین میں دولہن کے لئے پاکستان میں نرمی کے ساتھ فروغ پانے والے مارکٹ کے لئے غیر قانونی طریقے سے منتقل کی جانے والے سینکڑوں غریب عیسائی لڑکیوں سے سے اشرف ایک ہے۔
چینی مردوں نے لڑکیوں کی تلاش میں دلال کافی متحرک ہوگئے ہیں‘ بعض اوقات گرجاگھرؤں کے باہر کھڑے ہوکر وہ قابل دولہنوں کے متعلق استفسار کرتے ہیں۔ ان کی مدد عیسائی پادری کرتے ہیں جو غریب والدین ان کی بیٹیوں کے عوض موٹی رقم کا وعدہ کرکے انہیں ورغلانے کاکام کرتے ہیں۔
والدین کوہزاروں ڈالرس فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں کہاجاتا ہے کہ ان نیاداماد دولت مند عیسائی ہے۔
کئی دلہنوں‘ ان کے والدین‘ ایک کارکن‘ پادریوں اور حکومت کے مطابق مذکورہ دولہے دوبارہ کبھی نہیں دئے۔چین میں ایک مرتبہ لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر ہوجاتی ہے تو وہ خود صوبہ کے مضافاتی علاقے میں پاتی ہے‘ جہاں پر اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے‘ بات چیت سے قاصرہوجاتی ہے او رایک گلاس پانی کے لئے ترجمہ کرنے والے ایپ پر منحصر ہوجاتی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنچاب سے تعلق رکھنے والے اقلیتی اور انسانی حقوق کے وزیر اعجاب عالم اگسٹین نے کہاکہ”یہ انسانی تسکری ہے۔ ان شادیوں کا ذمہ دار لالچ ہے۔ میں نے کچھ لڑکیوں سے ملاقات کی ہے جو نہایت غریب ہیں“۔
انہوں نے چین کی حکومت او رپاکستان میں متعین ان کے سفارت خانہ کو مورد الزام ٹہرایا جو اس تمام معاملہ پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور بنا ء کسی سوا ل کے ویزا او ردستاویزات کی اجرائی عمل میں لارہا ہے۔
مذکورہ چینی وزرات برائے خارجی امور نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ چین غیر قانونی بین ملکی شادیوں والی ایجنسیوں کے خلاف صفر روداری برتنے کاکام کرتی