پارلیمانی اور اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات پر ابھرتے خدشات۔ پروفیسر اختر الواسع

ان دنوں نہایت شدت سے یہ بات اٹھائی جاری ہے کہ کیوں نہ پارلیمانی اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں‘ اس تجویز ک یحمایت کرنے والوں کی سب نے مضبوط دلیل یہ ہے کہ اس طرح کے انتخابات منعقد کرانے میں ہونے والے اخراجات میں کافی کمی ائے گی او رملک کو ہرس ال کہیں نہ کہیں انتخابات میں جانے سے نجات ملے گی۔یہ تجویز پہلی بار سامنے نییں ائی ہے بلکہ ماضی میں بھی بہت سے مفکرین اور سیاست داں ایسی تجویز کی حمایت کرتے رہے ہیں لیکن اب یہ موضوع نہایت اہمیت کا حامل اس لئے ہوگیا ہے کہ کیونکہ نو منتخب چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہئے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہوجاتا ہے تو الیکشن کمیشن ایک ساتھ پارلیمانی اور اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کے لئے تیار ہے۔

سوال یہ پید اہوتا ہے کہ کیا ایک ساتھ انتخابات منعقد کرانے سے نفع یا نقصان کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے ؟ کیا اس سلسلے میں کوئی بحث ہوا جس سے اس ے نفع ونقصان کا باریکی سے جائزہ لیاجائے گا کیا عوام اور جمہوری قدروں کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والے افراد اس کے لئے تیار ہیں ۔ ان جیسے کئی سوالات ہیں جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد حتمی نتیجے تک پہنچاجاسکتا ہے۔

لوک سبھا او راسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے کی وکلات گرچہ ماضی میں بھی بہت سے مفکرین کرتے رہے ہیں لیکن سب سے زیادہ زور شور سے لال کرشنا اڈوانی جی نے اس مسئلہ کو اس وقت اٹھایا تھا جب وہ نائب وزیراعظم تھے۔ اس وقت بھی اڈوانی جی اس خواہش پر جوتبصرے ہوئے تھے تقریبا وہی احساس فی زمانہ بھی دانشواروں ماہرین سماجیات اور جمہوری مزاج کے تحفظ کی فکر کرنے والوں کا ہے۔جس طبقے کو ایک ساتھ انتخابات کرائے جانے میں نفع کم او رنقصان زیادہ محسوس ہورہا ہے ‘

انہیں ڈرہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد عوامی توقعات کو نظر انداز کرنے والے سیاست داں اور سیاسی جماعتیں ایک ساتھ انتخابات کے بعد تو عوام کو یقینی طور پر بھول جائیں گی کیونکہ انہیں پورے پانچ سال الیکشن میں جانے کا قطعا خوف نہیں رہے گا ۔ اس وقت کم از کم ہر سیاسی جماعت کو ایک الیکشن میں کامیابی کے بعد دوسرے الیکشن میں جانے کا خوف ہوتا ہے جس کی وجہہ سے وہ عوام کے کیے گئے وعدے بھولنا بھی چاہئے تو انہیں ائندہ الیکشن بھولنے نہیں دیتا ۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ حکمراں یاسیاسی جماعتیں ائندہ انتخابات میں عوام کے سامنے جوابدہی کے خوف سے ہی ترقیاتی کام کرتی ہیں اور انہیں ہرآن عوام کے سامنے جانے کی فکر رہتی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات الگ الگ ہونے سے جمہور ی قدروں کی پاسداری ہوتی ہے او ر عووام کو خود کی اہمیت محسوس ہوتی ہے اسی تناظر میں معماران قوم الگ الگ انتخابات کرائے جانے کو ترجیح دیتے رہے جس کے فوائد سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

ہندوستان کے موجودہ سیاسی پس منظر نامہ او رمرکزی حکومت کے اندازہ آہنگ کو دیکھ کر سیکولر اور انصاف پسند افراد کو محسوس ہورہا ہے کہ اس ملک کی جمہوریت جاں بلب ہے ہر طرف سے خاص ذہنیت کا بول بلا ہے ‘ حکمران نے مہار بولے جارہے ہے ‘ بے بنیا دعوے کرتا جارہا ہے ۔ ہر طرف پرکشش نعرے موثر سلوگن اور جھوٹے اعداد وشمار کا غلغلہ ہے اور عوام کو سمجھایا جارہا ہے کے دیش ترقی کررہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سارے دعوے کھوکھلے اور سبھی نعرے بے معنی معلوم پڑرہے ہیں۔ فکر مندی اس بات کولے کر ہے کہ ہمارا ملک فرقہ اریت کے گھٹاٹوپ اندھیرے کی جانب بڑرہا ہے اور کچھ طاقتیں ہیں کہ اندھیروں میں روشن ہونے والی ہر قندیل کو بجھادینے کے درپے ہیں۔

اور اگر ایسے میں ملک کے انتخابات فرقہ واریت کی بنیاد پر ہونے لگے تو یقینی بات ہے کہ اقتدار کی کنجی پر اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر قبضہ ہوتا چلاجائے گا اور ایک ہی جماعت ہوگی جس کا سارے ملک پر تسلط ہوگا پھر دھیرے دھیرے ایسا ماحول ہوجائے گا کہ جمہوریت کی بقاء ہی معدوم ہوتی چلی جائے گی ‘ انصاف کی آواز خود بخود خموش ہوجائے گی ۔ اس لئے ہمیں اس ملک کو اقتدار کی ایک محوری سے بچانا چاہئے