وعدوں کے انحراف میں کے سی آر اور مودی جڑواں بھائی ، قائد اپوزیشن راجیہ سبھا کا بیان
حیدرآباد ۔ 29 ۔ نومبر : ( سیاست نیوز) : قائد اپوزیشن راجیہ سبھا و سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد نے ٹی آر ایس اور مجلس کو بی جے پی کے چچیرے ممیرے بھائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وعدوں سے انحراف کے معاملے میں کے سی آر اور نریندر مودی جڑواں بھائی ہیں ۔ تلنگانہ میں بی جے پی ۔ ٹی آر ایس ۔ مجلس میں غیر معلنہ اتحاد ہوجانے کا الزام عائد کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں پیپلز فرنٹ کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی پیش قیاسی کی ۔ آج گاندھی بھون میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات بتائی اس موقع پر کانگریس کے ارکان راجیہ سبھا ایم اے خاں ، ڈاکٹر سید ناصر حسین کے علاوہ دوسرے قائدین موجود تھے ۔ غلام نبی آزاد نے کہا کہ تلنگانہ میں کانگریس تلگو دیشم سی پی آئی اور ٹی جے ایس نے کئی راونڈ کی مذاکرات کے بعد کھلم کھلا اتحاد کیا ہے ۔ چار جماعتوں کے درمیان نشستوں کی تقسیم ہوئی ہے اور چار جماعتوں کے قائدین مشترکہ طور پر عوام سے ووٹ بھی مانگ رہے ہیں ۔ ٹی آر ایس ۔ بی جے پی اور مجلس دیکھنے میں تین جماعت ہے مگر حقیقت میں تینوں ایک ہی ہے جو غیر معلنہ گٹھ بندھن ہے ۔ تینوں جماعتوں کا ایک ہی قائد ہے جو دہلی سے تینوں کو کنٹرول کررہا ہے ۔ تینوں جماعتیں علحدہ علحدہ مقابلہ کررہی ہیں دن میں ایک دوسرے پر تنقید کرتی ہیں الزامات عائد کرتی ہیں اور رات کے اندھیرے میں مل لیا کرتی ہیں ۔ کانگریس مذہب کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی سبھی مذاہب کا احترام کرتی ہے اور تمام مذاہب کے ووٹ مانگتی ہیں ۔ جب کہ بی جے پی ایک ہی مذہب کے ووٹ مانگتی ہے اور مذہبی جذبات بھڑکاتے ہوئے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے جب کہ مجلس اقلیتی ووٹ مانگتی ہے اور وہ بھی مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہوئے ایک ہی سماج کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اس تقابل سے اندازہ ہوگیا کہ دونوں جماعتوں کا ایجنڈا ایک ہے ۔ دونوں ملے ہوئے ہیں دونوں کی سونچ ، نظریات اور پالیسیاں ایک دوسرے سے میل کھاتی ہیں ۔ مجلس ملک کے دوسرے ریاستوں میں انتخابی مقابلہ کرتے ہوئے اکثریتی غلبہ والے علاقوں میں اپنے امیدوار کو کھڑا نہیں کرتی بلکہ اقلیتی غلبہ والے علاقوں میں اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارتی ہے تاکہ اقلیتی ووٹ تقسیم ہوجائے اور اس کا راست فائدہ فرقہ پرستوں کو ہوجائے ۔ اس طرح اکثریتی و اقلیتی رائے دہندوں کا استحصال ملک کی ترقی سالمیت ، اتحاد اور سیکولرازم کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔ کبھی کبھار بی جے پی بھی ان کی مدد کردیا کرتی ہے ۔ غلام نبی آزاد نے کہا کہ بی جے پی کو اقلیتیں ووٹ نہیں دیتی ہیں جس کی وجہ سے بی جے پی نے ملک کی سیاست اور ایوانوں سے ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کی نمائندگی گھٹا دی ہے ۔ لیکن وہ سیکولر ہندو بھائیوں کو سیلوٹ کرتے ہیں جو اقلیتوں کی حق تلفی اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے بھلے ہی انہیں اس کی قیمت چکانی پڑی ہے کانگریس کے سینئیر قائد نے کہا کہ جو جماعت اقتدار میں ہوتی ہے مجلس اس کے ساتھ ہوتی ہے ۔ پرانے شہر میں غربت کا خاتمہ ، مکانات ، پانی ، برقی اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے دوستی نہیں کرتی بلکہ ذاتی مفادات کے لیے دوستی کرتی ہے ۔ غلام نبی آزاد نے کے سی آر کو مخالف تعلیم چیف منسٹر قرار دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات فراہم کیا ۔ 56 اقلیتی انجینئرنگ کالجس قائم اور جنرل انجینئرنگ کالجس کی تعداد 216 تھی ۔ ٹی آر ایس کے دور حکومت میں 121 جنرل اور 47 اقلیتی انجینئرنگ کالجس بند ہوگئے ۔ کے سی آر ملک کے واحد چیف منسٹر ہیں جنہوں نے سکریٹریٹ کے بجائے گھر بیٹھ کر حکمرانی کی ہے ۔ جن کو گھر میں بیٹھنے کا شوق ہے انہیں گھر میں بٹھا دینا چاہئے ۔ آزاد نے کے سی آر اور مودی کو میڈفار ایچ ادر قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلاک منی ہندوستان نہیں آئی مگر وائیٹ منی نیرو مودی اور دوسروں کی شکل میں ہندوستان سے باہر ہوگئی ۔ وزیراعظم نے 10 کروڑ ملازمت کا وعدہ کیا ۔ کسانوں کے فلاح و بہبود کا وعدہ جس کو پورا نہیں کیا گیا ۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دیا گیا ۔ مگر بی جے پی کے دور حکومت میں بیٹی سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے ۔ مودی نے سرحد پر سرنہ کٹنے دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ مگر چار سال میں سب سے زیادہ سپاہی اور سویلین ہلاک ہوئے پاکستان کی مداخلت بڑھ گئی ۔ کے سی آر علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے پر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ مگر سیاست سے دستبردار نہیں ہوئے ۔ دلت کو چیف منسٹر بنانے کا وعدہ کیا ۔ اقتدار حاصل ہوتے ہی خود چیف منسٹر بن گئے ۔ ایک لاکھ ملازمت ، ڈبل بیڈ روم مکانات 12 فیصد مسلم تحفظات وغیرہ کچھ نہیں ملا ۔ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچانے کا کے سی آر پر الزام عائد کیا ۔ ہندو علاقوں میں انہیں تقاریر کے لیے طلب نہ کرنے کے دعویٰ سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے غلام نبی آزاد نے اس کو آر ایس ایس کی شرارت قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے تقاریر کے دوران کئی الفاظ کا استعمال کیا تھا تاہم صرف میری تقریر کے ان ہی الفاظ کو اچھالا گیا ۔ وہ کہنا چاہتے تھے کہ بی جے پی نے ماحول کو خراب کردیا ہے اس لیے لوگ ڈر رہے ہیں ۔۔