ٹیپوسلطان کی جانبازی کے متعلق صدرجمہوریہ ہند رام ناتھ کوئند نے بات کی ہے ‘ کانگریس نے نہیں

تقریر کی کاپی تبدیل کردی گئی تھی ‘ بی جے پی کا الزام
کیاوہ کانگریس ہی تھی جس نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کوئند کو ٹیپوسلطان کے متعلق جانکاری دی تھی یا پھر انہوں نے اپنے ذہن سے ہی یہ بات کہی تھی؟وہیں پر بی جے پی کا الزام ہے کہ ملک کے اول شہری کو کرناٹک حکومت نے درس دینے کی کوشش کی ہے‘ بنگلور میریر نے کچھ ایسے دستاویزات پیش کئے جس میں الزام لگایاگیاہے کہ صدر جمہوریہ کی تقریراسکرپٹ کے مطابق نہیں تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تقریر سکریٹریٹ نے تیار کی تھی جس میں ٹیپوسلطان کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ اپنے دعوے میں جی جے پی نے شیر میسور کی سو سالہ تقریب کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ وہ ایک ظالم حکمران تھے۔یہ ڈرامہ اس وقت نیا موڑ لیاجب یونین منسٹر اننت کمار ہیگڈے نے کہاکہ ان کا نام سرکاری دعوت نامہ سے ہٹادیاجائے۔اور پھر اس کے بعد چہارشنبہ کے روز صدر رام ناتھ کوئند نے ایوان اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ٹیپوسلطان شہید کو غیرمعمولی خراج پیش کیا‘ جس کی وجہہ سے بی جے پی دوقدم پیچھے ہٹنے پر مجبو رہوگئی۔

اور ا ب کہاجارہا ہے کہ جو بھی کہا ہے اس کے لئے کانگریس نے انہیں مجبور کیاہے۔صدرکی حقیقی تقریر کرناٹک قانون ساز اسمبلی نے تیار کی تھی جس میں ٹیپو کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اصل میں جب تقریر جب ٹائیگر آف میسور تک پہنچی وہاں پر میسور درج تھا۔ اسپیکر کے بی کولی واڈ نے تقریب کے واقعات کوسلسلہ وار یاد کرتے ہوئے کہاکہ’’ بی جے پی لیڈرس کے مطابق‘ تقریر تیار کرنے میں ہی پندرہ منٹ کی تاخیرہوئی۔ مگر جب صدر مشترکہ اجلا س سے خطاب کے لئے کھڑے ہوئے وہاں پر تقریر کی کاپی موجود نہیں تھی‘ فوری طور پر صدر کے باڈی گارڈ دستے کے ایک رکن مڑے اور تازہ پرنٹ ہوئے پیپرس پر مشتمل فائل ان کے حوالے کیا۔

انہوں نے کہاکہ’’ جب انہوں نے صفحات کی تحریر پڑھنے شروع کی ( ایک صفحہ پر ایک پیراگراف) سکریٹریٹ کا عملہ حیران ہوگیا۔صدر جمہوریہ مکمل طور پر اس کے بلکل ہٹ کر پڑھ رہے ہیں جو حقیقت میں درج ہے اور سکریٹریٹ نے بذریعہ ای میل روانہ کیاتھا‘‘۔انہو ں نے مزیدکہاکہ ’’ صدر کے دفتر کا مطالبہ ہے کہ وہ تمام نکات دیگر تفصیلات کے ساتھ پروگرام کی بذات خود دستخط کرکے دستاویزات بذریعہ ای میل 20اکٹوبر کو روانہ کئے تھے۔

اس میں سے پانچ فیصد بھی بشمول تقریر کے پورا نہیں ہوا‘‘۔ جولائی میں راجیہ سبھا کے اجلاس کے دوران پنڈت جواہر لال نہرو کا نام نہیں لئے جانہ پر صدراتی خطبہ کے خلاف کاروائی میں خلل پیدا کرتے ہوئے خطاب کو ایک پارٹی کے کارکن کے طور پر کہنے والے چیف منسٹر سدارامیا جو صدر جمہوریہ کی تقریر سے کافی متاثر ہوئے کا کہنا ہے کہ ڈائمنڈ جوبلی تقاریت کے دوران اپنے تقریر میں صدر رام ناتھ کوئند کرناٹک کی عظیم تاریخ کے متعلق بات کرتے ہوئے مختلف طبقا ت سے تعلق رکھنے والے ہمارے ہیروز کی تعریف کی۔ریاستی اسمبلی صدر سے کیا کھلوانا چاہتی تھی ۔

ایلریگو نمسکار جوکہ ایک کنڈا کا لفظ ہے جس کا مطالب تمام کو مبارکباد تھا۔اور اس کے وقت کے میسور ریاست میں جنگ آزادی کی عظیم جدوجہد کے دوران تعاون کرنے والے لوگوں کے نام جن میں کے سی ریڈی‘ کینگال ہنومنتیا‘ کاڈیڈال منجاآپا‘ کے ٹی بھاشیام‘ ایس ناجالینگآپاجو جنگ آزادی کے جدوجہد میں کافی مقبول نام ہیں۔دوسرا مہاتماگاندھی نے میسور اور ممبئی کرناٹک کے مختلف حصوں کو دورہ کرتے ہوئے یہاں کے لوگوں میں ایک نئی جان پھونکی تھی۔

تیسرا ویدھان سدھا کی بنیاد سابق وزیراعظم جواہر لا ل نہرو نے 1951میں رکھی اور افتتاح کاڈیڈال منجآپا نے جو اس وقت کے چیف منسٹر تھے نے 1956میں کیا۔چوتھامجھے یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی کہ ودھان سدھا دنیا کے تئیں ہمارے حقیقی احساس کی وضاحت کرتی ہے۔ پانچواں کینگال ہنومنتایہ ہر وقت یہ کہتے تھے کہ ہر خاص وعام آدمی یہاں پر آسکتا ہے ۔

اگر کوئی افیسر ان سے سوال کرتا تو وہ جواب میں کہتے کہ ’’ تم صرف ایسٹرن داخلہ کی سیڑھیو ں کی طرف دیکھو‘‘۔ اسی طرح اکیس نکات پر مشتمل تقریر تیار کی گئی تھی ۔ جبکہ کرناٹک کی عوام کی زندگی کے متعلق بھی بارہ نکات جس میں گلبرگی کی صوفیانہ ماحول اور بدھمت کے علاوہ مختلف امور کا اس میں تذکرہ کیاگیاتھا