ایران کیساتھ نئے نیوکلیئر سمجھوتہ کے مطالبہ پر حسن روحانی کا ردعمل
تبریز۔ 25 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) ایران کے ساتھ نئے نیوکلیئر سمجھوتہ کے لئے امریکہ اور فرانس کے مطالبہ کے بعد اس اسلامی جمہوریہ کے صدر حسن روحانی نے تازہ سمجھوتہ کے مطالبات کے جواز کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔ روحانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ایک یوروپی ملک کے رہنما کے ساتھ انہوں (ٹرمپ) نے کہا کہ سات فریقوں کے مابین طئے شدہ سمجھوتہ پر ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن کیوں؟ اور کس حق کے ساتھ؟ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو محدود کرنے کیلئے عالمی طاقتوں کے ساتھ تین سال قبل طئے شدہ سمجھوتہ کی ٹرمپ نے سخت مذمت کرتے ہوئے امریکہ کی اس سمجھوتہ سے دستبرداری کی دھمکی دی تھی۔ ٹرمپ دراصل ایران کے میزائل پروگرام کو محدود کرنے اور مشرق وسطیٰ میں مختلف مسلح گروپوں کو دی جانے والی تائید جیسے مسائل کو شامل کرتے ہوئے ایک وسیع تر سمجھوتہ چاہتے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانیول میکرون نے منگل کو ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ایران کے ساتھ فی الحال وہ ایک نئے سمجھوتے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس بیان کے بعد 2015ء میں طئے شدہ اس سجھوتہ پر دستخط کرنے والے یوروپی ممالک اس کو بچانے کی کوشش میں سرگرمی کے ساتھ مصروف ہوگئے ہیں تاہم صدر روحانی نے کہا کہ ان کا ملک نیوکلیئر سمجھوتہ کی سختی سے پابند کررہا ہے اور اپنے میزائل پروگرام پر کوئی بات چیت کرنا نہیں چاہتا۔ روحانی نے رائیل اسٹیٹ کے سرکردہ بزنسمین سے صدر بننے والے ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ناتجربہ کار قرار دیا۔ روحانی نے ٹرمپ سے کہا کہ آپ (ٹرمپ) محض ایک بزنسمین ہیں۔ آپ کو سیاست یا قانون یا بین الاقوامی سمجھوتوں کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں‘‘ اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ’’ایران نے 2015ء میں نیوکلیئر سمجھوتہ سے اتفاق کرتے ہوئے دنیا کے تئیں خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ روحانی نے کہا کہ ’’ہم ساری دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایران بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ حاصل کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی ایران مخالف مہم درحقیقت عرب اور عجم کی قدیم جنگ ہے اور اسی صورت میں اس کا اختتام ہوسکتا ہے جبکہ ایک دوسرے پر بالادستی کی مہم ختم کردی جائے اور انا کی خاطر ملت اسلامیہ کو تباہی و بربادی کی راہ پر نہ ڈالا جائے۔