ٓاترپردیش میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لئے قانون کا غلط استعمال 

ائے دن فرقہ پرستی کو منظم کیاجارہا ہے ۔ کچھ بھی نقصان نہیں ہوگا اس بات کا احساس یوگی ادتیہ ناتھ کے اس فیصلے کے بعد جب انہوں نے 1990کے دہے سے اب تک ان پر اور ان کے ساتھیوں پر درج مقدمات سے دستبردار ی کا فیصلہ کیاتھا

اترپردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کا طریقے کار اب تبدیل ہوگیا ہے ‘ جس کی عکاسی سدھا پائی اور سجن کمار نے یومیہ اساس کی فرقہ واریت دیکھائی ہے۔ 2004کے وقت بی جے پی کی شکست کے بعد معاصر اترپردیش میں فسادات ( او یو پی2018)‘ جب سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے 2002کے گجرات فسادات میں ناراضگی دیکھائی تھی ‘ مذکورہ ہندوتوا طاقتوں نے نئے طریقہ کار کا انتخاب کیاتھا

۔ماضی کی طرح ریاستی سطح میں بڑے پیمانے پر تشدد بھڑکانے کے بجائے بی جے پی ‘ آر ایس ایس نے ہلکے انداز میں کم اثر کی فرقہ وارنہ کشیدگی اور کم نقصان پہنچانے والے واقعات کوروبعمل لارہی ہے تاکہ ماحول گرم رہ سکے۔

بجرنگ دل اور یوگی ادتیہ ناتھ کی ہندو یوا واہانی ( ایچ وائی یو) جیسے تنظیم پولرائزیشن کی اس تکنیک کو نافذ کرنے میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔سال2017میں جب بی جے پی حکومت میں ائی وہاں سے حالات تبدیل ہوگئے۔

ہندو تنظیموں کا اہم نشانہ وہیں مسلمان رہے اور اس کی کڑی کے طور پر ہجومی تشدد کے سلسلہ وار واقعات رونماہوئے ‘ حالات اس لئے بھی مزید خراب ہوگئے کیونکہ پولیس اور فرقہ پرست تنظیمیں ملک کر ایک ساتھ کام کرنے لگیں۔

ایچ وائی یو کی شراکت داری کے ساتھ غیر ضروری فرقہ وارانہ تشدد کوبڑھاوا دے کر مسلمانوں کے گھر وں اور چھوٹی کاروبار کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب پولیس کی ان معاملات میں مداخلت ہوتی تو یہ تشدد بھڑکانے والوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوجاتا ہے۔

اورجب پولیس انہیں پکڑتی ہے تو ان پر یواے پی اے اور قومی سکیورٹی ایکٹ کے قانون کے تحت گرفتار کرتی ہے اور گرفتار کئے گئے لوگوں کو بنا ء کسی مقدمہ کے بارہ مہینوں تک جیل میں بند رکھنے کا انہیں موقع مل جاتا ہے

۔ سال2017میں160مسلمانوں کو این ایس اے کے تحت گرفتار کیاگیاتھا۔ سابق پولیس افیسر نے ایس آر دارا پوری نے بتایا کہ ’’ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس قانون کا بڑے پیمانے پر استحصال کیاگیا ہے۔ یہ بی جے پی کی اس پالیسی کا حصہ ہے جو دہشت کے ذریعہ حکومت کرنا چاہتی ہے۔

دلتوں اور اقلیتوں کو دبانے کے لئے پولیس کی طاقت کا استعمال کیاجاتا ہے‘‘۔اس کے برعکس یوگی ادتیہ ناتھ نے اپریشن کلین کی شروعات کی ‘ ایک ایسا کام جس میں پولیس کو مشتبہ مجرمین پر کھلی فائیرنگ کی حوصلہ افزائی مل گئی۔

جون 2017میں چیف منسٹر نے ٹیلی ویثرن کے ذریعہ اعلان کیاکہ ’’ اگر جرم کریں گے تو ٹھوک دئے جائیں گے۔ اس کے فوری بعد جانکاری ملی کے پولیس افیسروں نے چالیس مجرموں کو گولی مار کرہلاک کردیا۔

سال2017فبروری سے لے کر 2018فبروری تک خبر ہے کہ 1100شوٹنگس کے واقعات پیش ائے ہیں جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔

اتحاد مخالف نفرت نامی این جی اوکی جانب سے اکٹھاجانکاری کے مطابق اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کے اقتدار میں آنے کے بعد پولیس کو دی گئی آزادی میں کئی بے قصور ‘ بے گناہ مسلمانوں کو انکاونٹر میں ہلاک کردیاگیاہے