ویڈیو۔یونیورسٹی او رکالج میں پروفیسر س نہیں۔ واٹس ایپ یونیورسٹی پر کبھی اس بات پر بھی چرچا ہونی چاہئے۔روایش کمار

کلاس میں استاد نہیں اور ہندوستان بنے گا دنیاکا استاد ۔بنا استاد کے کیاہندوستان دنیا کا استاد بن سکتا ہے۔ یہ کمال صرف ہندوستان کے لیڈر ہی کراسکتے ہیں۔اور ان کے جھانسے میں ہمارے نوجوان ہی آسکتے ہیں۔ نوجوانوں کے شعور کا اندازہ اس سے ہی ہوجاتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ کالج میں پروفیسر نہیں ہے مگر وہ داخلہ لیتے ہیں اور ایڈمیشن فیس ادا کرتے ہیںیہی نہیں جو کالج ان کی ترقی کو ختم کرنے والا ہے اس کی ترقی کے لئے الگ سے فیس ادا کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں پانچ سال کے بعد ان کا شعور اس قدر بلند ہوجاتا ہے کہ وہ یوجی سی سے ایک ہزار کا فارم خریدتے ہیں او رنٹ کا امتحان دیتے ہیں۔

نٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ دو سے تین دہوں تک یعنی بیس سے تیس سال تک پروفیسر بننے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو بے روزگار رکھتے ہوئے ان سے کچھ نہ کچھ وصولنے کا ہنر ہماری یونیورسٹیوں سے سیکھانا چاہئے اور انہیں اس کام کے لئے نوبل انعام بھی دیاجانا چاہئے۔ یوجی سی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق2014-15میں گیارہ لاکھ طلبا نے نٹ کا امتحان لکھاجس میں سے 65,950امیدواروں نے نٹ کا امتحان پاس کیا۔نٹ کا امتحان سال میں دومرتبہ ہوتا ہے اور اسٹنٹ پروفیسر کے لئے نٹ کا امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔

جتنے لوگ نٹ میں کامیاب ہوتے ہیں اتنی تو بحالی ہوتی نہیں پھر امتحان کس لئے کرائے جاتے ہیں۔پرائم ٹائم میں شروع اس سیریز میں بہت ہی کام کالجوں او ریونیورسٹیوں کا حال آپ تک پہنچانے کاکام کیاجارہا ہے۔کئی ملازمتیں مگر تقررات کا عمل ندارد ہے۔ یونیورسٹی میں ملازمت کرنے والے طلبہ کومستقل ملازم ہونا ہندوستان کے نوجوانوں کا مستقل خواب ہے۔ مگر یونیورسٹی انہیں جھانسہ دے رہی ہے۔ واٹس ایپ یونیورسٹی میں اس پر بحث ناگزیر ہے۔

جئے پرکاش نارائنہ نے ‘ بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرنے والے جے پی کے بہت سارے لوگ حمایتی ہونے کادعو ی کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ ایمرجنسی کے موقع پر مکمل آزادی کا نعرہ جے پی نے لگایا۔ ان کی سیاست کا اہم موضوع بدعنوانی بنا ۔آواز اٹھانے کی آزادی پر نظریہ کا یہ احتجاج کافی کامیاب رہا۔ جے پی کا نام لیکر بہت سارے قائدین کامیاب ہوئے‘ کالا دھن کے نام پر سیاست چمکتی ہے۔ جے پی کا نام لینے والے کئی قائدین منسٹر او رمرکزی وزیر‘ جے پی کے نام پریونیورسٹی ‘ جے پی کے نا م پر ایک ڈھنگ کی یونیورسٹی نہیں ہے۔

جئے پرکاش نارائنہ یونیورسٹی کا قیام۔ این آئی آر ایف کے لسٹ میں نام تک نہیں۔دوسوچالیس ایکڑ زمین پر یونیورسٹی قائم کیاگیا۔ اس کے تحت32کالج جس میں47ہزار آتے ہیں۔ 750پروفیسر لکچررس ہونے چاہئے مگر ہیں صرف تین سوپروفیسر ہیں۔ سترہ پوسٹ گریجویٹ شعبہ جس کے لئے علیحدہ تقررات عمل میں آتے ہیں مگر سینئر طلبہ سے ہی خدمات حاصل کئے جاتے ہیں۔

اترپردیش ‘ ریاست اور دیگر علاقوں کی یونیورسٹی پر مشتمل رواش کمار کی اس رپورٹ کامشاہدہ کرنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح یونیورسٹیز کے نام پر نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیاجارہا ہے۔

پیش ہے ویڈیو

https://www.youtube.com/watch?v=76y5qlX_jkY