وہ جن کے ہاتھ نہ ہوں اُن کی بھی تقدیر ہوتی ہے

معذور ذاکر پاشاہ اسکالرشپ سے محروم، اقلیتی عہدیداروں کی بے حسی
اقلیتی فینانس کارپوریشن کو فنگر پرنٹ چاہئے جبکہ امیدوار ہاتھوں سے محروم ہے
حیدرآباد ۔ یکم اگست (سیاست نیوز) اقلیتی طلبہ کیلئے اسکالرشپ سے محرومی کوئی نئی بات نہیں لیکن ایک معذور مسلم نوجوان کو محکمہ اقلیتی بہبود نے گزشتہ چند برسوں سے اسکالرشپ کی منظوری سے محض اس لئے انکار کردیا کہ وہ اپنا فنگر پرنٹ ریکارڈ نہیں کرسکتا۔ 22 سالہ ذاکر پاشاہ کا تعلق آصف آباد ضلع سے ہے اور وہ دونوں ہاتھ سے محروم ہے لہذا وہ اپنا فنگر پرنٹ کس طرح ریکارڈ کر پائے گا ۔ محکمہ اقلیتی بہبود اور خاص طور پر اقلیتی فینانس کارپوریشن کے عہدیداروں کو انسانی ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیںجس کے نتیجہ میں ہاتھوں سے محروم یہ نوجوان اسکالرشپ سے محروم ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے وہ وقفہ وقفہ سے 300 کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرتے ہوئے اس امید کے ساتھ فینانس کارپوریشن کے دفتر کے چکر کاٹ رہا ہے کہ کسی نہ کسی دن اس کی سنوائی ہوگی لیکن عہدیداروں کے سخت گیر رویہ سے اسے ہمیشہ مایوسی ہورہی ہے۔ ذاکر پاشاہ عہدیداروں کے اس رویہ سے یہ سوچنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ کیا معذورین کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کا حق حاصل نہیں ؟ کیا معذورین حکومت کی اسکالرشپ کے مستحق نہیں ہیں ؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے اسکالرشپ کیلئے دوڑ دھوپ کرنے والے اس نوجوان کو ا قلیتی بہبود کے کئی عہدیداروں نے دیکھا لیکن کسی نے ہمدردی نہیں کی ۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن میں اسکیمات پر عمل آوری کس حد تک شفافیت کے ساتھ کی جارہی ہے، اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپئے عہدیدار اور ذمہ دار اپنی آسائش اور آرام پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسکیمات میں بدعنوانیوں سے ہر کوئی واقف ہے لیکن افسوس ایک معذور نوجوان کو اسکالرشپ سے محروم رکھا گیا ہے۔ ذاکر پاشاہ کی کہانی یقیناً ہر شخص کیلئے حیرت اور تکلیف کا باعث رہے گی۔ ہوسکتا ہے کہ سیاست کی اس رپورٹ کے بعد محکمہ کے عہدیدار خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور شرائط میں ترمیم کرتے ہوئے اسکالرشپ منظور کی جائے گی۔ حکومت کی شرائط کے تحت اسکالرشپ کے حصول کے لئے امیدوار کو فنگر پرنٹ ریکارڈ کرنا ضروری ہے لیکن جب کسی کے ہاتھ ہی نہ ہوں تو اس کا کیا قصور ۔ گزشتہ دو برسوں سے اسکالرشپ کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والے ذاکر پاشاہ کا تعلق غریب گھرانے سے ہے لیکن وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کا جذبہ رکھتا ہے۔ ذاکر پاشاہ اوپن یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن میں زیر تعلیم ہے اور وہ اپنے ایک پیر کی مدد سے لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایس ایس سی میں 65 فیصد اور انٹر میں 75 فیصد نشانات حاصل کئے اور ان کی معذوری بہتر تعلیمی مظاہرہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔ وہ اپنے خاندان کے واحد فرزند ہیں اور ان کے والد آٹو ڈرائیور ہیں۔ ذاکر پاشاہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان کی مدد کرے تو وہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ مجھے اطلاع ملی تھی کہ اقلیتی فینانس کار پوریشن اس طرح کے معاملات میں مدد کرسکتا ہے لیکن میری انتھک مساعی کے باوجود امداد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ ذاکر پاشاہ کو حکومت کی جانب سے آسرا پنشن کے تحت ماہانہ 1500 روپئے حاصل ہوتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب آنکھ کی پتلی کے اسکیان کے ذریعہ آدھار کارڈ تیار کیا جاسکتا ہے تو پھر اسکالرشپ کیلئے اس طرح کی سہولت کیوں نہیں ؟ ذاکر پاشاہ اپنے پیروں کی مدد سے کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں اور ان کے عزائم کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ ہاتھوں سے معذور یہ نوجوان خود اپنی تابناک تقدیر ضرور لکھے گا۔ شائد کسی شاعر نے ذاکر پاشاہ کیلئے ہی یہ شعر لکھا ہو ؎
ہتھیلی کی لکیروں میں مقدر ڈھونڈنے والو
وہ جن کے ہاتھ نہ ہوں اُن کی بھی تقدیر ہوتی ہے