ناجائز دولت کا چلن کسی نہ کسی شکل میں جاری رہیگا۔ پروفیسر ارون کمار کا تاثر
نئی دہلی۔/29نومبر، ( سیاست ڈاٹ کام ) جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر معاشیات ارون کمار جو کہ ہندوستان میں کالا دھن ( پینگوئن 1999) کے مصنف ہیں کا یہ ایقان ہے کہ بلیک منی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے نوٹوں کی منسوخی کا طریقہ کار مناسب نہیں ہے اس کے برخلاف یہ قدم وائیٹ منی ( جائز دولت ) کو متاثر کرسکتا ہے۔ ارون کمار کا یہ تجزیہ ہے کہ عام آدمی شدید متاثر ہوجائیگا، طلب میں کمی کی وجہ پیداوار اور رسد میںبھی گراوٹ آجائے گی جس کے نتیجہ میں ملازمتوں میں کٹوتی ہوجائے گی۔ ستم بالائے ستم ، سب سے زیادہ تو عوام کی معمولات زندگی درہم برہم ہوجائے گی۔ طلب میں سست روی ایک دو سال تک جاری رہے گی۔
آئندہ سات آٹھ ماہ تک کرنسی نوٹوں کی سربراہی معمول پر نہیں آئے گی کیونکہ اس کے چلن میں مشکلات درپیش ہوں گی۔ بالآخر کساد بازی جیسی صورتحال حاوی ہوجائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نوٹوں کی منسوخی کے اقدام سے زراعت، صنعت اور سرویس شعبہ بھی متاثر رہے گا۔جبکہ مجموعی دولت میںبلیک منی کا حصہ صرف 1-2 فیصد ہے اور یہ رقم دوبارہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اگر ناجائز آمدنی کو منسوخ بھی کردیا گیا تو کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔ پروفیسر ارون کمار نے بتایا کہ مختلف ذرائع نقلی ادویات، بغیر بلز کے ٹریڈ اور بزنس میں بلیک منی بڑھتی جائے گی چونکہ معیشت کے متعدد شعبے ہیں ۔ ناجائز آمدنی کمانے کے مواقع بھی دستیاب ہیں۔ اگر جاریہ سال تھوڑی بہت بلیک منی کے خلاف کارروائی کی جائے گی تو آئندہ سال دوبارہ سر اٹھائے گی۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ نوٹ بندی کی بجائے حکومت حوالہ گھرانوں کا پتہ چلانے بینکوں میں رازداری کو ختم کیا جائے۔جوابدہی کا پابند بنانے کے لئے لوک پال تشکیل دیا جائے۔ محض کرنسی نوٹوں کی منسوخی سے بلیک منی کے مسئلہ سے نمٹا نہیں جاسکتا بلکہ جائز دولت کمانے والوں، چھوٹے تاجروں اور ورکرس کو تہس نہس کردے گی۔ اگر نوٹ بندی کی وجہ سے بلیک منی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو ہم تھوڑی بہت مصیبتیں جھیلنے کے لئے تیار ہیں بصورت دیگر یہ تکالیف کیوں برداشت کرنی چاہیئے۔؟