’’میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں‘‘۔ جسٹس لویا کی پراسر موت سے قبل او رمابعد کے حالات پر مختصر ڈاکیومنٹری۔ ویڈیو

سہراب الدین فرضی انکاونٹر کیس کی سنوائی کررہے سی بی ائی ممبئی کی خصوصی عدالت کے جج برج گوپال ہرکشن لویا کی پراسرار موت پر ذرائع ابلاغ کی خاموشی ‘ ڈر اور خوف کا ماحول اس قدر بھیانک ہوگیا ہے کہ متوفی کے لواحقین بالخصوص اہلیہ اور بیٹا بھی کچھ بولنے سے خوف کھارہے ہیں۔بالآخر بہن نے زبان کھولی اور لویاکی موت کے اردگر دگھومتے واقعات پر سوالا ت کھڑا کئے۔
جمہوریت کے چار ستون میں ایک ستون عدلیہ ہے اور بے شمار دھاندلیوں ‘ بدعنوانیو ں کے باوجود آج بھی ہندوستانی عوام کا بھروسہ عدلیہ پر اتنا ہی جتنا پہلے تھا۔ مگر جس طرح کے حالات قومی سطح پر وقوع پذیر ہورہے ہیں اس میں عوام کا عدلیہ پر بھروسہ برقرار رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ان وجوہات پر روشنی سے قبل مضمون کے پس منظر میں جانا ضروری ہے ۔ یکم ڈسمبر 2014کو مہارشٹرا کے ناگپور ضلع میں ساتھی جج کے بیٹی کی شادی میں ائے سی بی ائی کی خصوصی ممبئی عدالت کے ایک جج برج گوپال ہرکشن لویاکی ناگہانی حالات میں موت واقعہ ہوجاتی ہے۔ کہاتو یہ جارہا ہے کہ جج شادی میں شرکت کے لئے راضی نہیں تھے مگر دوساتھی ججوں کے بارہااسرار پر وہ شادی میں شرکت کے لئے رضامند ہوگئے۔ شادی میں شرکت کے لئے وہ ناگپور پہنچے اور ان کا قلب پر حملے کے سبب وہاں پر انتقال ہوگیا۔

واضح رہے کہ جج برج گوپال ہرکشن لویا وہی جج ہے جو گجرات کے سہراب الدین فرضی انکاونٹر کیس کی سی بی ائی ممبئی کی خصوصی عدالت میں چل رہی سنوائی کی نگرانی کررہے تھے۔ او راس کیس میں اس وقت کے گجرات ہوم منسٹر امیت شاہ اہم ملزم تھے۔ اس کو اتفاق کہیںیا پھر کچھ اور مگر یکم ڈسمبر کو لویا کی موت ہوتی ہے اور 30ڈسمبر 2014کو امیت شاہ اس کیس سیاسی ساز ش کے تحت ملوث کرنے کی بات کرتے ہوئے باعزت بری کردیا گیا۔اب بات جج برج گوپال لویا کی موت کی کرتے ہیں ۔ اس تمام واقعہ پر سے پرد ہ اسوقت اٹھا جب متوفی لویا کی بہن انورادھا بیانی جوکہ ایک ڈاکٹر بھی ہیں نے ’ کاروان ‘ نامی میگزین کے صحافی کو بتایا کہ انہیں لویا کی ناگہانی حالات میں موت پر شبہ ہے۔

کیونکہ جس انداز میں لویا کے موت کی خبر گھر والو ں کوسنائی گئی اور جس طرح لواحقین کی اجازت کے بغیر لویا کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد نعش ممبئی کے ان کے مکان کے بجائے لاتور میں واقعہ ان کے آبائی گاؤں کو روانہ کردی گئی ۔چار دن بعد لویاکو موبائیل فون گھر والوں کو واپس کیاگیا جس میں فون کی ہسٹر ی کو مٹادیاگیا تھا ۔ یہ وہ تمام شبہات ہیں جس کی وجہہ یہ کہنا بھی مناسب ہوسکے گا کہ لویا کی موت قدرتی نہیں ہے۔متوفی جج لویا کی بہن بیانی کے مطابق جب نعش لاتور کے ان کے آبائی گاؤں کو لائی گئی تو نعش کے سر پر زخم کے نشان تھے ۔ چشمہ گردن پر لٹکا ہوا تھا اورآستین کے علاوہ کالر پر بھی خون کے دھبے تھے۔ عموماً قلب پر حملے کی وجہہ سے ہونے والی موت پر نعش کا پوسٹ مارٹم نہیں کیاجاتا مگر وہ کیا وجہہ تھی کہ عجلت میں لویاکا پوسٹ مارٹم کیاگیا۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ لویا ناگپور کے وی وی ائی پی گیسٹ ہاوز میں ٹہرے ہوئے تھے جہاں پر سرمائی اسمبلی اجلاس کی تیار ی میں ریاست مہارشٹرا کے وزراء‘ ائی اے ایس ‘ ائی پی ایس ‘ گروپ ٹو رینک کے عہدیدار موجود تھے ‘ مگر لویا کو کار یا ایمبولنس کے بجائے اٹورکشہ میں ناگپور کے ایک خانگی دھانڈے اسپتال لے جایاگیا ‘ جہاں پر ابتدائی علا ج کے بعد انہیں ناگپور گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ اسپتال لے جایاگیا جہاں پر ڈاکٹرس نے لویا کو مردہ قراردیا۔سی بی ائی ممبئی کی خصوصی عدالت کے جج کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ‘ یہ ایک ایساسوال ہے جس جو اب تین سال سے متوفی لویا کی بہن انورادھا تلاش کررہی ہیں۔تعجب تو اس بات کا ہے کہ موت کی اطلاع ‘ پوسٹ مارٹم رپورٹ‘ ساتھی ججوں کا رابطے میں نہیں آنا۔

متوفی جج لویا کی پتنی شرمیلا کو فون کرکے موت کے وقت کی غلط اطلاع دینا۔ متوفی جج کے والد ہرکشن کو اس بات کی اطلاع دینا کہ لاتور کے ان کے آبائی گیٹ گاؤں میں ججوں کے ہمراہ نعش روانہ کی جارہی ہے اور نعش کو ایمبولنس میں صرف ایک ڈرائیور کا لے کر آنا‘ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے ۔آخری رسومات کے دوران گاؤں پہنچے ججوں میں سے کسی نے متوفی برج گوپال ہرکشن لویا کے بیٹے انوج او رپتنی شرمیلا کو تاکید کے کسی کے سامنے آپنا منھ نہ کھولیں۔ آخر ایسی کیابات تھی جس کو چھپایا جارہا ہے ۔ موت اطلاع فون پر ملنے کے بعد آر ایس ایس کا مقامی لیڈر ایشوار بہتی نعش کو گیٹ گاؤ ں لانے کی اطلاع لے کر لویا کے آبائی مکان پہنچتا ہے ۔

آخر کس طرح آر ایس ایس کے مذکورہ لیڈر کو اس بات کی خبر ملی کہ لویاکی نعش گاؤں لائی جارہی ہے ۔ اس سے قبل بہتی سے لویا کے کسی گھر والے نے ملاقات نہیں کی تھی او رنہ وہ اس کو جانتے تھے مگر لویاکی فیملی کے ہر رکن سے ایشور بہتی واقف تھا اور یہی وہ شخص ہے جس نے آخری رسوما ت انجام دئے جانے کے تین دن بعد برج گوپال ہرکشن لویا کا موبائل فون لاکر واپس دیا ۔ جس موبائیل فون کی تمام ہسٹری کو بھی مٹادیاگیاتھا۔ بہتی کے پاس موبائیل فون آیاکہاں سے اور موبائیل فون کی ہسٹری کس نے مٹائی ان سوالات کے جوابات جاننا ضروری ہے۔

لویا جا کو جون 2014کو سہراب الدین فرضی انکاونٹر کیس سنوائی کے لئے تقررعمل میں لایاگیاتھا۔ اس سے قبل جسٹس جے ٹی اٹ پاٹ اس کیس کی سنوائی کررہے تھے ۔ درخواست گذاروں کی جانب سے گجرات میں آزادنہ تحقیقات عمل میں نہیںآنے کے خدشات کے بعد سپریم کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ تحقیقات او رسہراب الدین فرضی انکاونٹر کیس کی سنوائی ممبئی سی بی ائی کی خصوصی عدالت میں ہوگی اور سنوائی ختم ہونے تک مذکورہ بنچ کے کسی بھی جج کاتبادلہ نہیں کیا جانا چاہئے مگر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی اس وقت ہوئی جب سہراب الدین فرضی انکاونٹر کیس کی سنوائی کے دوران 6جون 2014جو کیس کے اصل ملزم امیت شاہ ( بی جے پی کے قومی صدر) کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا‘ 6جون کے روز امیت شاہ حاضر نہیں ہوئی او راپنے وکیل سے مصروفیت کی وجہہ سے حاضری سے چھٹکارہ طلب کیا مگر جسٹس ات پاٹ نے چھٹکارہ دینے سے انکار کرتے ہوئے مقدمہ کی سنوائی 26جون کو مقرر کردی مگر اس سے عین ایک دن قبل 25جون کو جسٹس اٹ پاٹ کاتبادلہ کردیا گیا اور ان کی جگہ براج گوپال ہر کشن لویاکو سنوائی کے لئے مقرر کیاگیا ۔

لویا اسی کیس کی سنوائی کررہے تھے اور انہوں نے بھی امیت شاہ کی عدالت میں حاضری کے متعلق سخت رویہ اپنایا تھا ۔لویاکے بہن انورادھا بیانی نے مبینہ طور کاروان سے کہاکہ ’’ لویا کو سو کروڑ کی پیش کی گئی گئی ‘ چیف جسٹس موہت شاہ نے انہیںیہ پیشکش کی اور ساتھ میں ممبئی میں ایک اعلی شان گھر بھی رشوت میں پیش کیاتھا‘‘ ۔ لویا کی صحت کے متعلق اگر دیکھا گیا کہ تو 48سال کے برج گوپال ہرکشن لویا نہایت چست او رتندرست تھے ۔ انورادھا بیانی کے مطابق وہ کبھی بھی اپنے صحت کے ساتھ لاپرواہ نہیں تھے او رمعمولی بدہضمی او رکھانسی پر بھی وہ انورادھا بیانی سے رجوع ہوجایاکرتے تھے جو کہ ایک ڈاکٹربھی ہیں۔اور جہا ں تک کارڈیک ارسٹ کی بات ہے تو قلب کے ماہرین کا یہ کہناہے کہ اس طرح کا قلب پر حملہ جس کو متوفی لویا سے جوڑا جارہا ہے وہ خاندانی ہوتاہے مگر لویا کی خاندان میں کسی کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوا ہے۔

ناگپور میں پوسٹ مارٹم کے بعد نعش ان کے چچا زاد بھائی کے حوالے کی گئی جس دستخط پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ہر صفحے پر موجود ہے مگر متوفی لویا کے والد کا کہناہے کہ ان کا کوئی بھتیجا او ررشتہ دار ناگپور میں رہتا ہی نہیں ہے ‘ تو پھر نعش حاصل کس نے کی اور کون تھا جس نے خود کو لویا کا بھائی ظاہر کرکے نعش لے جانے میں کامیاب رہا۔ کیاناگپور سرکاری اسپتال انتظامیہ کو یہ بات تعجب نہیں لگی کہ سی بی ائی ممبئی کی خصوصی عدالت کے جج کی نعش کو بناء پروٹوکال کے کس طرح کسی کے بھی حوالہ کردیں۔ یاپھر اسپتال انتظامیہ سے اس بات کو چھپائی گئی کہ لویا ایک سی بی ائی ممبئی کی خصوصی عدالت کے جج ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کس نے یہ بات چھپائی اور اس کے پس پردہ کیامحرکات تھے۔ لویا کی موت سے کس کو فائدہ پہنچتا ہے اور اگر وہ زندہ رہتے تو کس قسم کا وہ فیصلہ سناتے یہ وہ باتیں جن جواب جاننے کے لئے متوفی لویا کی فیملی بے چین ہے ۔

ایمانداری کی سزاء جان گنوا کرچکانے کا چلن اگر عام ہوجاتا ہے تو جس مقصد اور منشاء کے ساتھ فسطائی طاقتیں سارے ملک میں خوف اور دہشت کا ماحول پید ا کررہی ہیں اس میں انہیں کامیابی حاصل ہوجائے گی۔ حقائق کو پیش کرنے والی صحافت بھی فسطائی ذہنیت کوبرداشت نہیں ہوتی‘ مگر ملک کا قومی ذرائع ابلاغ صحافتی اقدار سے بے بہرہ ہوگیا ہے ۔ سی بی ائی عدالت کے جج کی موت کے مسلئے کو قومی ذرائع ابلاغ نے ایک عام واقعہ کی طرح نذ ر انداز کرچکا ہے ۔ لویا کی موت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ او ریہی وجہہ ہے کہ والد کی موت کے متعلق چیف جسٹس آف انڈیا کو چھٹی لکھا کر لویا کے بیٹے انوج نے اس موت کی تحقیقات کی سفارش کی مگر اس پر بھی اب تک کوئی عمل نہیں کیاگیا ۔

اس کے برخلاف سی بی ائی کے متوفی جج کی پتنی شرمیلا اور بیٹا انوج خوف اور دہشت کے ماحول میں زندگی گذار رہے ہیں۔ اگر جمہوریت کی حفاظت کرنے اور جمہوری اور مستحکم بنانا ہے تو جمہوریت کے چاروں ستون کی حفاظت ضروری ہے ورنہ جمہوریت کی چھت میں دب کر لویاجیسے ایماندار لوگ اپنی جان گنواتے رہیں گے او ران کی نعش ہم سوال کرتے رہے گی کہ

میں کس ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

سید نوازش مہدی