آخری مرتبہ محمد ہاشم نے دیکھا تھا کہ ان کابھائی زندہ ہے‘ وہ اپنی جان کی بھیک مانگ رہا تھا۔ فوجیو ں نے 35سالہ ٹیچر کو جب دور لے کر گئے اس وقت اس کے دونوں ہاتھ عقب میں بندھے ہوئے تھے
بنگلہ دیش۔وہ 26اگست کا دن تھا ایک روز قبل ہی روہنگیائی مسلم علیحدگی پسندوں نے مغربی میانمار میں اپنے آبائی مقام پر ملٹری اؤٹ پوسٹ پر حملہ کیاتھا۔
اس کے جواب میں میانمار کی فوج اور مقامی بدھسٹوں نے عصمت ریزی ‘ قتل عام کی مہم شروع کی جس کے نتیجے میں سات لاکھ روہنگیائی اپنی جان بچاکر بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے لئے مجبو رہوگئے۔
مگر ایک درجن سے زائد ٹیچرس‘ معمر او رمذہبی لیڈران نے اے پی سے یہ کہاکہ تعلیمی یافتہ روہنگیائی پہلے سے ہی منظم ظلم وہراسانی کاشکار تھے۔ فوجیو ں نے تعلیمی یافتہ لوگوں کو نشانہ بنایا تاکہ کمیونٹی کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھانے والا کوئی باقی نہ رہے۔
نسلی کشی او رجان بوجھ کر قتل کو انجام دینے والے واقعات کا مطالبہ کرنے والیوں کے مطابق یہ ایک قدیم روایت ہے۔
ہاشم نے کہاکہ ’’ میرے بھائی نے معافی مانگی اور قتل کرنے کے لئے فوج سے درخواست کی ۔ اپنے شناختی کارڈ دیکھاتے ہوئے اس نے کہاکہ’میں ایک ٹیچر ہوں‘ میں ایک ٹیچر ہوں‘ مگر مذکورہ حکومت نے میرے بھائی کے بشمول تعلیمی یافتہ لوگوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیاتھا‘‘۔
اگست 25کے بعد نسل کشی کے موقع پر فوجیوں نے گاؤں سے پوچھا کہ ٹیچرس کہاں ہیں‘‘؟۔
رحیم جس کی عمر26سال کی ہے قدیم ہائی اسکول میں سائنس اور ریاضی کا تعلیم دیتا تھا جس کے متعلق کئی فوجیوں کو معلوم نہیں تھا کیونکہ وہ مقامی بٹالین اسکول میں ان کے بچوں کو درس دیاکرتا تھا نے جب دیکھا کہ فوج آرہی ہے تو وہ فرار ہوگیا۔ رحیم نے کہاکہ’’ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں ان کے ہاتھ لگ جاتاتو وہ مجھے ماردیتے۔
انہو ں نے میرا تعقب کیا‘‘۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق دفتر کی جانب سے ستمبر میں لئے گئے 65پناہ گزینوں کے انٹرویو سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ’’ میانمار کے سکیورٹی فورسس نے ٹیچرس ‘ ثقافتی اور مذہبی قائدین کو نشانہ بنایا ہے‘ تاکہ روہنگیائیو ں کی تاریخ ‘ تہذیب او رجانکاری کو ختم کیاجاسکے‘‘۔
بدھسٹ اکثریتی والے نارتھ راکھین ریاست میں روہنگیائیو ں کو ’’ بنگالی ‘‘ قراردیاجاتا ہے اور انہیں ان کی روایتوں کے مطابق جینا اور اسکول جانے سے روک دیاگیاہے۔