مویشیوں کی فروخت پر عائد پابندی برخاست

مرکز نے قانونی ترمیم کا متنازعہ حکمنامہ واپس لے لیا ، نئے حکمنامہ کی اجرائی

مویشیوں کی فروخت پر امتناع اور دستبرداری ، اہم واقعات
٭ /23 مئی : جانوروں سے بے رحمی کے قانون میں ترمیم اور بازاروں میں مویشیوں کی فروخت پر امتناع کے لئے مرکز نے حکمنامہ جاری کیا ۔
٭ /30 مئی : مدراس ہائی کورٹ کی مدد لائی ، بنچ نے حکمنامہ پر حکم التواء جاری کیا
٭ /30 جولائی : سپریم کورٹ نے مدورائی کے حکم التواء کو سارے ملک تک وسعت دی
٭ /30 اگست : مرکز کو حکمنامہ میں ترمیمات کرنا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا
٭ /30 نومبر : مرکز نے حکمنامہ کو واپس لے لیا

نئی دہلی ۔ /3 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) حکومت نے مویشیوں کے بازاروں میں بڑے جانوروں کی فروخت پر پابندی سے متعلق اپنے متنازعہ اعلامیہ سے آج دستبرداری اختیاری کرلی ۔ واضح رہے کہ مرکز نے اس سال مئی کے اوائیل میں مویشیوں پر ظلم اور بے رحمی کے انسداد سے متعلق قانون میں ترمیم کرتے ہوئے سخت ترین رہنمایانہ خطوط جاری کیا تھا ۔ جس کے تحت بازاروں میں مویشیوں کی فروخت کے ضمن میں سخت ترین قواعد اور ضابطے وضع کئے گئے تھے ۔ اس حکمنامہ کو واپس لینے کے لئے /30 نومبر کو اگرچہ ایک دوسرا اعلامیہ جاری کیا گیا لیکن وزارت ماحولیات نے ہفتہ کو اس کی اجرائی عمل میں لائی جس میں کہا گیا ہے کہ ’’مرکزی حکومت اپنے حکمنامہ نمبر جی ایس آر 493 (ای) مورخہ /23 مئی 2017 ء وزارت ماحولیات ، حکومت ہند بضمن جنگلات و ماحولیاتی تبدیلی سے دستبرداری اختیار کرتی ہے ‘‘ ۔ اس اعلامیہ کے مطابق گائے ، بیل ، بھینس ، کھلگے ، بچھڑے ، اؤنٹ وغیرہ صرف اس وقت فروخت کئے جاسکتے ہیں جب فروخت کنندگان رسمی طور پر یہ بیان کریں کہ ان مویشیوں کو ’’ذبیحہ کے مقصد سے فروخت کرنے کیلئے مارکٹ نہیں لایا گیا ہے ‘‘ ۔ اس کے ساتھ خریداروں کیلئے بھی یہ توثیق کرنا لازمی تھا کہ وہ کاشتکار ہیں اور یہ اعلان بھی ضروری تھا کہ وہ ان مویشیوں کو خریدی گئی تاریخ سے آئندہ چھ ماہ تک فروخت نہیں کریں گے ۔ مویشی بازاروں میں ان جانوروں کی فروخت پر پابندی کے سابق حکمنامہ کی اجرائی پر مرکز کو نہ صرف مویشی کے تاجرین ، کاشت کاروں ، سماجی جہد کاروں بلکہ سیاسی جماعتوں کی بھی سخت تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ان تمام نے نریندر مودی حکومت پر ہندوتوا ایجنڈہ مسلط کرنے کا الزام عائد کیا تھا ۔ بالخصوص مویشیوں کے تاجرین اور اس کاروبار سے وابستہ افراد اس پابندی کو اپنے خلاف دہرا دھکا تصور کررہے تھے کیونکہ انہیں پہلے سے اپنے کاروبار میں گاؤ دہشت گردوں کے حملوں کے سبب سخت رکاوٹوں کا سامنا تھا ۔ کیرالا ، ٹاملناڈو ، مغربی بنگال کی حکومتوں نے بھی اس اعلامیہ کی مخالفت کی تھی جبکہ گوا اور چند شمالی مشرقی ریاستوں میں جہاں مسلم آبادی نسبتاً کم ہے اور عیسائیوں کی قابل لحاظ آبادی سے بڑے جانوروں کو ذبیحہ کرنے یا ان کی تجارت پر کوئی پابندی نہیں کی گئی تھی اور وہاں مویشیوں کے کاروباریوں کو گاؤ دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا بھی نہیں تھا ۔ ملک کے مختلف مقامات بالخصوص شمالی ہند میں گاؤ دہشت گردوں کے حملوں سے گزشتہ دو تین برسوں کے دوران تقریباً 200 افراد ہلاک ہوچکے ہیں ان میں 95 فیصد سے زائد مسلمان اور دیگر چند دلت شامل ہیں ۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ مویشیوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے طریقوں پر سفارشات کی پیشکش کیلئے ایک بین وزارتی کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’ پیپلز فار انیملس ‘ سے وابستہ جہد کار گوری ماؤلیکھی نے کہا ہے کہ ’’حکومت گوشت کے کاروباریوں کے دباؤ کے تحت یہ قدم اٹھائی ہے ۔ حکمنامہ سے دستبرداری کو ہم عدالت میں چیلنج کریں گے ‘‘ ۔