جیت کے بعد مودی کی تقریر جو ”سب کا ساتھ‘ سب کا وکاس‘ سب کا وشواس‘ کے متعلق اوراقلیتوں پر جیت حاصل کرنے کے متعلق بیان کے باری میں آپ کیاسونچتے ہیں؟
اس سے مجھے 2014میں کی گئی ان کی تقریروں کی یاد آتی ہے‘ جب انہو ں نے اسی طرح کی باتیں کی تھیں‘ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی تقریریں حقیقت سے کبھی میل کھاتے نظر
نہیں ائی۔ مجھے توقع ہے اس مرتبہ وہ ایسا کریں گے۔ بطور ہندوستان میں چاہتاہوں کہ ہندوستان اچھا کرے‘ جیسا کہ انہوں نے کہاہے ”مخالفین کو بھی لے ائیں گے اپنے ساتھ‘‘ اگر
وہ اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں جس کو ان کی پارٹی نے ختم کردیا ہے اور وہ اپنے کہی ہوئی بات پر عمل کرتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی او ربات نہیں ہوگی۔
اس کا ثبوت ان کی طرف سے آنا ہوگا ہماری طرف سے نہیں۔ہم نے پچھلے پانچ سال دیکھیں جو کہنے او ر کرنے سے ہٹ کر رہے ہیں
نریندر مودی کے ہاتھوں دوسری مرتبہ شکست کے بعد کانگریس کے پاس کوئی راستہ بچا ہے؟۔
ہم نے دیکھا ہے پہلی معیاد میں بی جے پی نے ووٹرس کو کس طرح دھوکہ دیا ہے۔ نوٹ بندی کی وجہہ سے لوگوں کی زندگی بربادہوگئی‘ بڑے پیمانے پر چھوٹی صنعت بند ہوگئی۔
بے روزگاری نے پچھلے 45سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ زراعی بحران اس قدر تھا کہ کسانوں نے بھاری تعداد میں خودکشی کی ہے۔
بنیادی طور پر ہم نے غلط نہیں سمجھتاتھا کہ لوگ ان کے اقتصادی مفادات کے پیش نظر ووٹ ڈالیں گے۔
مگر بی جے پی نے پلواماں۔ بالاکوٹ حملے کے بعد اپنی قومیت کے پیغام کے ذریعہ مودی کو مضبوط لیڈر کے طور پر پیش کیا‘ اقتصادی عوامل کے عام احساس کو اس کے ذریعہ ختم کردیاگیا۔
سال2018میں بی جے پی کو تین ریاستوں میں شکست ہوئی اور2017میں گجرات میں وہ قریب سے جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
لہذا کانگریس نے ریاستی حکومتوں میں جیت حاصل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ہمیں ریاستی حکومتوں کوبچانے اور کچھ پر جیت حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔
اس کے لئے ہمیں زمینی او رپارٹی کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے‘ بالخصوص اس سونچ کے لئے ساتپ ریاست اسمبلی الیکشن آنے والے ہیں
کانگریس کی مہم کے ساتھ کیاچیز غلط رہی؟
نارتھ میں ہم نے عوام کا موڈ پڑھنے میں غلطی کی ہے۔ یہا ں پر بی جے پی کی انتخابات میں کامیابی اور ان کے طرز حکمرانوں میں بڑا تضاد ہے۔ کئی مرکزی اسکیموں کو درست انداز
میں نافذ نہیں کیاگیا۔ اگر آپ 2014میں کئے گئے مودی کے وعدوں کو دیکھیں گے انہوں نے ان سے ایک کو بھی پورا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ ”اچھے دن“ کبھی نہیں ائے۔