من موہن سنگھ نے کہاکہ ’’ سیاسی تنازعات او رلڑائی تیزی کے ساتھ مذہبی علامتوں‘ نشانوں ‘ عہدوں او رتعصب کی سمت گامزن ہے‘‘
نئی دہلی۔ہندوتوا ’’ زندگی کا طریقہ ہے‘‘ نہ کہ مذہبی طرز عمل کے متعلق تقریبا دوسال کے بعد سپریم کورٹ نے 1995میں دئے گئے اپنے فیصلے کی دوبارہ جانچ کو نامنظوری کے بعد منگل کے روز سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہاکہ 1995کے حقیقی فیصلے نے ہندوستان کی سیاسی گفتگو ’’ کچھ حد تک چھوٹا کردیاتھا‘‘او ریہ ’’ کئی لوگوں کاماننا ہے کہ ‘‘ مذکورہ ’’ فیصلے پر زوردیاجائے‘‘۔
قومی راجدھانی دہلی کے کانسٹیٹویشن کلب میں منعقدہ اے بی بردھان یادگار لکچر سے خطا ب کرتے ہوئے سنگھ نے کہاکہ عدلیہ کو چاہئے کہ وہ ’’ سکیولرازم کے دستور اقدار کی حفاظت کی اولین ذمہ داری ‘‘ کا خیال رکھیں۔
انہو ں نے کہاکہ یہ مزید درکار ہوگیاہے کیونکہ ’’ سیاسی تنازعات او رلڑائی تیزی کے ساتھ مذہبی علامتوں‘ نشانوں ‘ عہدوں او رتعصب کی سمت گامزن ہے‘‘۔یہ تقریب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا( سی پی ائی) کے زیر اہتمام منعقدہ کی گئی اور لکچر بردھان کی یاد میں تھا اتفاق سے جنھوں نے 2008میں من موہن سنگھ حکومت سے لفٹ فرنٹ کی حمایت سے دستبرداری کا اعلان کیاتھا۔
تقریب میں شامل لوگوں میں سی پی ائی( ایم) کے جنرل سکریٹری ستیا رام یچوری اور سی پی ائی کی بڑے قائدین بشمول سی پی ائی قومی جنرل سکریٹری ایس سدھاکر ریڈی اور سینئر لیڈر ڈی راجہ بھی موجود تھے۔
سنگھ نے سیاسی تبدیلیوں کی عکاسی کی جس کے تحت سیاسی حریف 2019میں بی جے پی کے چیالنج کے طور پر قریب سے کام کررہے ہیں۔
من موہن سنگھ نے ’’سکیولرزم کی دفاع اور دستور‘‘ پر بات کرتے ہوئے کہاکہ دستور کے معماروں نے بھار ت کاعزم ایک ’’ سکیولر آرڈر‘‘ کے طور قائم کیاتھا۔ انہو ں نے 2001میں سابق وزیراعظم اے بی واجپائی کے اس بیان کویاد کرتے ہوئے کہاکہ جس میں انہوں نے مانا تھا کہ’’ سکیولرزام کوئی دوسری دنیا کا ائیڈیا نہیں ہے جس کو ہم نے آزادی کے بعد اپنایاہے۔
یہ ہمارے داخلی اور قدرتی عمل ہے جو ملک کی تہذیب وتمدن کاعلمبردار ہے‘‘۔
سنگھ نے کہاکہ بابری مسجد کے انہدام کا واقعہ’’ تکلیف دہ معاملہ ‘‘ تھا جس نے ہندوستان کے سکیولر اقدار پرسوال کھڑا کئے ہیں۔
وہیں6ڈسمبر1992کا دن جس روز مسجد ڈھائی گئی وہ ایک ’’ سکیولر جمہوری ملک کے لئے غم دن ‘‘ تھا۔