انقلاب سے خصوصی بات چیت میں مصر کی خاتون اُردو اسکالر ڈاکٹر بسنت شکری نے عرب دنیامیں اُردو کی بڑھتی مقبولیت سے روشناس کرایا
نئی دہلی۔ ہندوستان میں اُردو کی بقاء کو لے کر اٹھنے والے سوالات کے درمیان محبا ن اُردو کے لئے مصر سے ایک خوشخبر ی ائی ہے کہ وہاں بہت تیزی کے ساتھ اُردو پھل پھول رہی ہے۔ ہندوستان میں تشریف لانے والی مصری مہمان ڈاکٹر بسنت شکری جو جامعہ طنطاء مصر میں شعبہ ادبیات کی استاد ہیں نے نئی دہلی میں ایک پروگرام کے دوران نمائندہ انقلاب سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مصر میں اُردو کے فروغ کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ۔ڈاکٹر بسنت شکری کو بچپن ہی سے اُردو زبان سیکھنے کا شوق تھا۔
جیسے ہی وہ ابتدائی تعلیم کے مراحل طئے کرتے ہوئے الازہر یونیورسٹی میں ائیں ‘ انہوں نے یہاں سے اُردو میں بی اے کیا اور پھر عین شمسی یونیورسٹی کے ایم اے کرنے کے بعد المنصور یونیورسٹی سے جدید اُردو شاعری ‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ڈاکٹر بسنت شکری کو اُردو زبان سیکھانے او ران کی ہر موڑ پر مددکرنے میں ڈاکٹر یوسف نے اہم رول ادا کیا ہے جن کا وہ بہت احترام کرتی ہیں۔ اٹھ بہن بھائیوں والے گھر میں چار بہنوں کے ساتھ رہتے ہوئے انہوں نے اُردو زبان کا یہ سفر طئے کیااور آج طنطا یونیورسٹی میں در س وتدریس میں مصروف ہیں۔
انہو ں نے بتایا کہ ہندوستان ومصر کے قدیمی تعلقات اور ایک زمانے میں مصری صدر جما ل عبدالناصر اورپنڈت جواہرلال نہرو کے درمیان میں ہوئے سمجھوتے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان قربت کے سبب بہت سی باتیں سامنے ائیں‘ جن کو دیکھ کر مصری شہریوں میں ہندوستان اور یہا ں کی زبان میں خاص طور پر اُردو حالانکہ لوگوں نے ہند ی بھی سیکھی ہے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ان میں ہندوستانی فلمیں جن میں مغل اعظم‘ لیلی مجنوں جیسی فلمیں کافی مقبولیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ اُردو شاعری کا بھی بہت بڑا رول ہے جس میں انہوں نے خاص طور پر حضرت امیر خسرو دہلوی‘ غالب ‘ میر تقی میر‘ علامہ اقبال کواور جدید دور میں ڈاکٹر وسیم بریلوی کو پڑھا ہے اور ان کی شاعری کو پسند کرتی ہیں۔
ڈاکٹر بسنت شکری نے احمد فراز کا دیوان خواب گل پریشان ہے اور شاہد ماہلی کے شہر خاموش ہے جس میں دہلی کے بارہ میں دیاگیا ہے کا اُردو سے عربی میں ترجمہ کیاہے۔ انہو ں نے کلیم عاجز کی کلیات ‘جوشاعری کا سبب ہوا‘ کا بھی عربی زبان میں ترجمہ کیاہے۔ اس کے علاوہ قرآن کو یاد کرنے کے لئے بھی دس نصیحتیں عربی سے اُردو میں ترجمہ کیاہے او رالاسلام عقید وشریعہ کا بھی عربی زبان سے اُردو ترجمہ کیا ہے ۔ انہو ں نے بتایا کہ ریسرچ کے دوران اپنے مضمون جدید اُردوشاعری میں انہو ں نے اُردو ادب کے اندر موجود حب الوطنی کو دکھانے کی کوشش کی ہے جس میں انہوں نے خاص طور عربی زبان میں بھی تحریر کیاہے۔ انہو ں نے بتایاکہ مصر میں موجود سبھی سات یونیورسٹیوں میں اُردو زبان سیکھنے والے عرب طلبہ ہیں۔
انہو ں نے یہ بھی بتایا کہ خود ان کی جامعہ طنطا میں تقریبا 30طالبات اور 40سے زیادہ طلبہ اُردو زبان سیکھ رہے ہیں جو اپنے آپ میں ایک اہم بات ہے۔ اُردو زبان کو مصر کے مختلف شہروں میں کافی پسند کیاجارہا ہے۔قاہرہ کے کفر الشیخ کے رہنے والی ڈاکٹر بسنت شکری نے بتا یاکہ مصر میں جس طرح اُردو زبان کو چاہنے والے مووجد ہیں اس طرح کوئی نصاب وہاں قائم نہیں ہے‘ جس سے عربی زبان جاننے والے بہتر طریقہ سے اُردو لکھنا ‘ پڑھنااور بولنا سیکھ سکیں۔ جبکہ دور جدیدمیں کسی بہتر نصاب تعلیم کی سخت ضرورت ہے اور ایسا ممکن ہواتو اُردو زبان سیکھنے والوں کی تعداد میں مزیداضافہ ہوگا۔
اسی طرح مصر میں اُردو کی زیادہ کتابیں بھی دستیاب نہیں ہیں اور بہت کم کتابیں بھی دستیاب نہیں ہیں او ربہت کم کتابیں جو مخصو ص مصنفین کی تخلیق ہیں‘ مل پاتی ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ میں اُردو سے اتنی زیادہ محبت کرتی ہوں کہ چاہوں گی میرے بچے بھی اُردو سکھیں ۔ انہوں نے ہندوستان اور یہاں کے فن وثقافت نیز مشترکہ تہذیب کی بھی تعریف کی اور کہاکہ یہ ملک واقعی دوستی او رمحبت والا ملک ہے جہاں کے لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لئے فوری تیار ہوجاتے ہیں۔