نئی دہلی : مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کی کوشش کا معاملہ ، شاہ کلیم اللہ کی زمین پر پارکنگ بنانے کی پروگرام ،درگاہ سید ابراہیم میں پانی کا مسئلہ ، بہادر سکھ پولیس افسر کی تحسین او ربنگالی اسکول کا لسانی اقلیتی ادارہ ہونے کے معاملہ میں دہلی اقلیتی کمیشن نے شکایتی مکتوب او رسومو ٹو نوٹس جاری کئے تھے ۔
ان میں کچھ کے جواب آئے ہیں جس میں متعلق معاملوں سے کمیشن کو آگاہ کیا جائے گا۔یکم اپریل کو مشرقی دہلی کے منڈاؤلی علاقہ میں ’ اکھنڈ بھارت مارچ ‘نکالاگیا تھا ۔جلوس نے ایک مسجد او رمدرسہ کے سامنے رک کر تلواروں سے ناچ کیا ، پٹاخہ پھوڑے او ربے ہنگم نعرہ بازی کی اور یہ سب سوشل میڈیا کے ذریعہ خوب پھیلایا گیا ۔دہلی اقلیتی کمیشن نے اس سلسلہ میں مشرقی ضلع کے ڈسی پی کو نوٹس بھیج کر رپورٹ طلب کی کہ اس جلوس کے سلسلہ میں کیا کارروائی کی گئی ۔ڈی سی پی نے کہا کہ ہنومان جینتی کے موقع پر یہ جلوس علاقہ میں نکالا گیا تھا ۔
اس جلوس کے انتظامیہ نے پولیس سے حفاظتی دستہ طلب کیا تھا جوانہیں فراہم کردیاگیاتھا ۔اس جلوس کے مدھووہار پولیس اسٹیشن کو بھی شکایتیں موصول ہوئیں ۔دریں اثنا ء پولیس اسٹیشن میں مساجد او رمدارس کے ذمہ داروں کا خصوصی اجلاس منعقد کیاگیا ۔صدر دہلی اقلیتی کمیشن ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ یہ بہت ہی اچھا طریقہ ہے کہ مقامی پولیس معاملات کو کیسے دبادیتی ہے ۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ پولیس اورمقامی اشرار کے دباؤ میں نہ آئیں او راپنی شکایت واپس نہ لیں کیونکہ کوئی کارروائی نہ ہونے پرغنڈہ عناصر اپنی کارروائی ء جاری رکھیں گے ۔واضح رہے کہ رام نگر کے ایک سکھ پولیس افسر گگن دیپ سنگھ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک مسلم نوجوان کو ایک گروہ سے بچایا جو اسکی جان لینا چاہتا تھا کیو نکہ ایک ہندو لڑکی لڑکی کے ساتھ مندر گیا تھا ۔
اس سکھ افسر کے ستائش کرتے ہوئے ظفر الاسلام نے کہا کہ ’’میں اور ملک کے کروڑوں لوگ آپ کی بہادری سے متاثر ہیں ۔میں آپ کے اس عمل کی ستائش کرتاہوں ۔اور آپ کی بہادری کو سلام کرتا ہوں ۔آپ ہمارے لئے اور محکمہ پولیس کے لئے رول ماڈل ہیں ۔ظفر الاسلام نے اس خط کی ایک کاپی اتراکھنڈ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس شری انیل راتوری کو بھی ارسال کی ہے ۔