26/11 حملہ آوروں اور پاکستانی عناصر میں سازباز سے انکارنہیں کیا جاسکتا
واشنگٹن ۔ 30 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کے ایک اعلیٰ سطحی سینیٹر نے کہا کہ پاکستان کے سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف کا یہ اعتراف کہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیم لشکرطیبہ کی نہ صرف مدد کی بلکہ تربیت بھی فراہم کی، کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اور اس طرح اب 26/11 ممبئی حملوں میں ملوث حملہ آوروں اور پاکستانی حکومت میں موجود عناصر میں سازباز کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سینیٹر ٹم کاٹنے جو ایک بارسوخ ڈیموکریٹک سینیٹر تصور کئے جاتے ہیں، نے کہا کہ انہیں پرویز مشرف کے اعتراف سے ذرہ برابر بھی حیرت نہیں ہوئی لہٰذا اب اس بات سے شاید ہی انکار ممکن ہو کہ 2008ء میں کئے گئے ممبئی حملوں میں ملوث افراد اور پاکستانی حکومت میں موجود کچھ عناصر میں زبردست سازباز رہی ہے۔ یاد رہے کہ مسٹر کاٹنے نے گذشتہ سال اکٹوبر میں ممبئی میں ان تمام مقامات کا دورہ کیا تھا جہاں دہشت گردانہ حملے کئے گئے تھے۔ مسٹر کاٹنے نے یہ بات ڈیفنس رائٹرس گروپ کو اس وقت بتائی جب ان سے مسٹر مشرف کے حالیہ اعتراف کے بارے میں ان کے (کاٹنے) خیالات ظاہر کرنے کی خواہش کی گئی تھی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ مسٹر کاٹنے نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے بھی ملاقات کی تھی کیونکہ خود نواز شریف امریکہ کے دورہ پر گئے تھے اور انہوں نے طاقتور فارن ریلیشنز کمیٹیوں کے سینیٹس سے ملاقات کی تھی۔ ورجینیا کی نمائندگی کرنے والے مسٹر کاٹنے نے کہا کہ ان کا خیال یہ ہیکہ ایبٹ آباد میں امریکہ کے ذریعہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد نواز شریف کا دورہ امریکہ ایک انتہائی پیچیدہ نوعیت کا دورہ تصور کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھی ہم یہ بات بلا تامل کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات اس وقت صحیح سمت کی جانب گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوپاک کے درمیان بہتر تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کو ہی امریکہ نے ہمیشہ ترجیح دی ہے اور یہی خواہش کی ہیکہ دونوں ممالک میں پائیدار امن قائم ہوجائے۔ تاہم ایل او سی پر جو حالات ہیں انہیں دیکھ کر یقینا امریکہ تشویش میں مبتلاء ہے۔
انہوں نے وزیراعظم ہند نریندر مودی کے اس خیرسگالی جذبہ کی بھی ستائش کی جب گذشتہ سال مئی میں برسراقتدار آنے کے بعد اپنی حلف برداری کی تقریب میں نریندرمودی نے سارک ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا تھا جن میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف بھی شامل تھے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کیلئے وہ یقینا ایک اچھا آغاز تھا تاہم جو آغاز اچھا ہوا تھا اس آغاز پر بعدازاں مؤثر عمل آوری نہیں ہوسکی اور دونوں ہی جانب سے سردمہری کا اظہار کچھ ایسے انداز میں ہوا کہ تعلقات اچھے ہونے کے بجائے بگڑ گئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ خراب تعلقات ہمیشہ قائم رہیں گے۔ امریکہ اپنی جانب سے ہندوپاک کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے ہمیشہ اپنی سعی جاری رکھے گا۔ ضرورت اس بات کی ہیکہ دونوں جانب کے سیاستداں اناپ شناپ بیانات دینے سے گریز کریں۔ زبان کی لغزش ایک علحدہ بات ہے اور کسی بات کو قصداً کسی کی دلآزاری کیلئے کہنا علحدہ بات ہے۔