مسلم اکثریتی والے علاقوں میں مضبوط رائے دہی دہلی میں نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے

نئی دہلی۔ وہیں دہلی میں 60.5فیصد سے زائد لوک سبھاکے لئے رائے دہی ریکارڈکی گئی ہے‘ جو 2014کی 65.1فیصدسے کم ہے‘ اس میں جو اثر پڑنے والا ہے ان حلقوں میں رائے دہی کا زائد تناسب ہے جہاں پر مسلم آبادی کی اکثریت پائی جاتی ہے۔

جبکہ بلی مارن میں 68.3فیصد جبکہ ماتیا محل او رسلیم پور بالترتیب 66.9فیصداور65.5فیصدسے آگے نہیں گئے۔ ترلوک پوری میں 65.4فیصدمصطفےٰ آباد65.2فیصدبابرپور62.1فیصدچاندنی چوک59.4فیصدسوائے اوکھلا کے جہاں سب سے کم 54.8فیصدفیصدر رائے دہی ریکارڈکی گئی ہے۔

بہت سارے مسلمانوں نے یا تو کانگریس کو ووٹ دیا ہے یا عآپ کو مگر لوگوں کو تشویش ہے کہ اگر مسلم ووٹ تقسیم ہوتے ہیں تو س کا راست فائدہ بی جے پی کوہوگا‘ ٹھیک اسی وقت میں کانگریس کو اس بات کا یقین ہے کہ اس کا مظاہرہ نہایت بہتر ہے‘ کیونکہ لوگوں نے قومی پارٹی کو ووٹ دینے کی ترجیح دی ہے۔

ٹی او ائی سے بات کرتے ہوئے کچھ رائے دہندوں نے بتایا کہ عام آدمی پارٹی حکومت نے ضرور کچھ فلاحی کام انجام دئے ہیں مگر یہ الیکشن قومی ایجنڈہ کی بنیاد پر ہے۔

کچھ جانکاروں کا اندازہ ہے کہ ووٹرس اور امیدواروں کے درمیان میں تال میل کمی کے سبب بہت سارے رائے دہندے گھر و ں میں رہنے کو ہی رجیح دئے ہیں۔

چاندنی چوک کی شکور بستی میں جہاں پر یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی اکثریت ہے وہاں کی تناسبب68.7فیصدرہا ہے جبکہ دہلی کنٹونمنٹ میں 42.1فیصدفیصد رائے دہی ریکارڈ کی گئی ہے